"تخریب کاریاں"
اک
کہانی ہے کمال کی
اک
لیلہ تھی میہوال کی
مجنوں
بھی تھا دسترس میں لیکن
جھولی
پھیلاۓ
پھرتی تھی
کسی
رانجھے کے ملال کی
ہفتے
کو بانٹ رکھا تھا دن کے تعین میں
اک
شبِ وصل بھی گزری تھی،
کسی
ہجر ناک سال کی
یہ
پہیلی بھی عجیب تھی،
بنتِ
ہوا کی مور چال کی
مجنوں
بھی سیانا تھا
ہو
گا ہوشیار مہیوال بھی
رانجھے
کو بھی علم تھا
اس
سارے کھیل میں
کردار
تھا بس اک قلم کا
وارث
شاہ کی خود ہیر نے
تقدیر
لکھی تھی
اک
رانجھے کے زوال کی
نہیں
ہی یہ قصہ کسی
تاریخی
ورق کا حصہ
یہ
بنتِ ہوا جدید ہے
محبت
کی مانگتی دلیل ہے
سن
کے ہس دیتی ہے
کہانی
کسی انجان کے وبال کی
کچھ
کم نہیں ہے اب
آدم
کی نرینا اولاد بھی،
ایک
کے بعد دوسری تک
حاصل
آسان رسائ ہے
حسرت
پھر بھی ہے باقی
اک
حور کے جمال کی
دونوں
نے مل کر بنا رکھا ہے
تماشا
سا اس خاکی کو
بدمست
ہے زندگی جو،
گزر
رہی ہےسستے میں
عشق
کا لبادہ اوڑھ کے
فقیر
کہتا ہے ,عشق افسانہ ہے
کسی
بلھے کی دھمال کا
یہ
قصہ فقط مزاجی نہیں ہے
یہ
کردار ہے کسی سفال کا
از
قلم: صفا خالد
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭