نظم : مولا میرا حساب کر دے
مولا میرا حساب کر دے
کہ میں تھک چکا ہوں
تیری اِس بے ہنگم سی دنیا سے
اِن پتھر صفت لوگوں سے
کہتے تو خود کو خاک ہیں
لیکن بہت سفاک ہی
یہ کرتے تو ہیں جفا کی باتیں
وفا کی باتیں
بظاہر تو زندہ ہیں
اندر سے مردہ ہیں
مولا,
میں تھک چکا ہوں
اِن محبتوں سے رفاقتوں سے
یہاں کوئی نہیں ہے میرا, میرے سوا
کہ رہیں گے ہم ساتھ سدا
یہی جینے کا وعدہ کیا تھا
مولا,
یہ کُل جہاں تم سے بنا ہے
تُو جیسا چاہے بنا سکتا تھا
پھر کیوں تو نے اپنے بندوں میں
بے وفائی کی فطرت رکھی ہے
اگر ایسا کر بھی دیا تھا
تو کوئی امر دیتا مجھے
کہ میں بتا سکوں اِن لوگوں کو
کہ چاہتوں کی دیواروں میں
محبتوں میں
رفاقتوں میں
یوں ایک دم سے بدگمانی نہیں رکھتے
مولا,
کوئی شکایت تھی مجھ سے
تو مجھے بتا تو دیتے
یا میرے دل میں کوئی ایسی بات ڈال دیتے
یا مجھے خوابوں میں کوئی اشارہ مل جاتا
کہ وہ مجھے چھوڑ جائے گا
مجھے توڑ جائے گا
میں سمبھل تو جاتا
یوں بھٹکنا بہت اذیت ہے
اور میں اس اذیت سے تھک چکا ہوں
جب سے چھوڑا ہے اُس نے
دل توڑا ہے اُس نے
مجھے یہ دنیا دنیا نہیں لگتی
ویران لگتی ہے
قفس اور زندان لگتی ہے
مولا,
میری التجا ہے اِن کندھے پر بیٹھے فرشتوں سے
کہ میری کتاب کھول دیں
بدی ہے یا نیکی جو بھی ہے
میرے آنگن میں ڈال دے
میرے گناہ ہیں زیادہ
مجھے یہ ہے پتا
جو بھی تو عطا کرے
میرے ساتھ وفا کرے
جفا کرے یا خفا کرے
میں سورگ میں رہوں یا نرگ میں
بس تو میرا حساب کر دے
مولا میرا حساب کر دے
علی عمران جازب
No comments:
Post a Comment