affiliate marketing Famous Urdu Poetry: Tum yad aa gaey by Farah Tahir Urdu Poetry

Saturday, 25 July 2020

Tum yad aa gaey by Farah Tahir Urdu Poetry

غزل
آئینے میں جو دیکھا حسن و جمال اپنا
تب دل نے کہا چپکے سے تم لوٹ آئے ہو
وہ ایک بوسیدہ سا گھر جو گرنے کو کبھی تھا
تعمیر نو ہوا تو لگا تم لوٹ آئے ہو
گلاب کی اک بیل جو تم نے ہمیں دی تھی اس پر جو کلہ پھوٹی لگا تم لوٹ آئے ہو
پت چھڑ میں گئے تھے تم چھوڑ کر تنہا
بہارو نے کہا ہے اب تم لوٹ آئے ہو
اب آہی گئے ہو تو تھوڑا سا مسکاں دو
کچھ تو لگے تم لوٹ آئے ہو
آو یہاں بیٹھوں تکلف یہ ہے  کیسا
ہم تو بہت خوش ہیں کہ تم لوٹ آئے ہو
ہاتھوں میں جو دیکھا مہندی کا شوخ رنگ
تب جاکہ یقین آیا تم لوٹ آئے ہو
فرح طاہر
********

تُم یاد آگئے ہو

آنکھوں کے کنارے جب اچانک بھیگنے لگے
تب احساس یہ ہوا__پھر تُم یاد آگئےہو

ہنستا ہوا جو دیکھا اِک حسین جوڑا
دل میں اٹھی کَسک__پھر تُم یاد آگئے ہو

چلتی چلی گئی جب اُنہی راستوں پہ تنہا
دیکھا جو بوڑھا برگد___پھر تُم یاد آگئے ہو

اپنے ہی خیالوں سے چونکی جو اچانک
احساس بس یہی تھا___پھر تُم یاد آگئے ہو

عہدوپیمان ہوۓ تھے جو ہمارے درمیان
وہ بھولنے لگے تو___پھر تُم یاد آگئے ہو

کمرے میں پڑے دیکھے کافی کے میلے کپ
پھر تیری طلب جگی___پھر تُم یاد آگئے ہو

فرح طاہر
**********

کتنا درد ہوتا ہے
جب اپنا بہت اپنا
ہمیں تنہائی دیتا ہے
وہی تنہائی ڈستی ہے
یادیں درد بنتی ہیں
سانس محال ہوتا ہے
تب احساس ہوتا ہے
یہ عشق جدائی ہے
یہ ایسی جدائی ہے
یہ ویسی جدائی ہے
جو جینے نہیں دے گی
پھر ممکن نہیں ہو گی
رائی اس جدائی سے
اس عشق جدائی سے...!!!
فرح طاہر
**********

گرنا,سنبھلنا اور لڑکھڑا جانا
تیری یاد اس طرح آۓ ہے جاناں
تجھے بھولنا گر چاہوں.....
تجھے اور پاس پاؤں
تو ہی زندگی ہے میری
تجھے کس طرح بتاؤں
فرح طاہر
****

کتنا آسان ہے کہناکہ___
میں کچھ بھی نہیں تیری
گرمیں کچھ بھی نہیں تیری
تو کیوں تو اکثر مجھ کو یاد کرتی ہے___
میری دی چیزوں کو کیوں اپنے ساتھ رکھتی ہے
گر میں کچھ بھی نہیں تیری___
تو کیوں ہر چھوٹے لمحے میں
ذکر مسلسل میرا کرتی ہے
کیوں اپنی بات کی آخر و ابتدا میرے نام کرتی ہے
میں___
کچھ بھی نہیں ناں تیری
تو اس انسیت کو ذرا تبدل کر اب تو___
میری دی چیزوں کو خود سے دور کر اب تو__
اپنی گفتگو میں اب کبھی میرا نام مت لینا
مجھے اب بھول تم جاناں
میں___
تیری اب کچھ نہیں جاناں
فرح طاہر
*******

زندگی اگر ترستی ہے تو ترساتی بھی بہت ہے___
اور میں! اپنے حصے کا ترس چکی ہوں اس لیے اب زندگی سے میری بس ایک یہی خواہش ہے کہ اب____
وہ مجھے وہ سفر عطا کر دے جس کے مسافر  #تم اور #میں ہو. اور____
جس سے واپسی کی صورت #ہماری آخری سانس ہو

تیرے واسطے میرا عشق صوفیانہ
فرح طاہر
*********

سُننا چاہو گے
درد ان  لَمحوں کا____
جِن کی فہرست میں شامل ہے
اَدھورے خوابوں کی نوکیلی کِرچیاں
آرزؤں کی ست رنگی مُردہ تِتلیاں
اَپنے ہاتھوں پونچھے آنسوؤں کی نَمی
اَپنے کندھے پر رکھے اَپنے سر کو دیا دَلاسہ
بَند آنکھوں کے پیچھے___
دِکھائی دیتے "تم" کے پیچھے بھاگتے ننگے پاؤں
جُھکے سر کے بکھرے بَال
تیری یاد میں بِلکتی آنکھیں
تھکن سے گِرتا پڑتا شکست خوردہ وجود
تیرے قرب کی چاہ میں سلگ کر ویران ہوتا وہ "دل"
جو اگر یہ سب کہہ دے تو کیا____؟؟؟
زلفوں کو سنوار دو گے؟؟
آنکھوں کا کاجل نِکھار دو گے؟؟
تھکن بدن کی اُتار دو گے؟؟
ویرانیوں کو بہار دو گے؟؟
بتا کہ سب جو اگر یہ کہہ دوں____
اداس ہوں میں__!!!!
تو کیا خوشی کاااا سبب بنو گے؟؟؟
بنو گے میرے؟؟؟
ملو گے مجھ سے؟؟؟
تو کیا مُجھے مُجھ سے نواز دو گے؟؟؟

فرح طاہر
*********

تُمہاری کمی
آنکھوں سے نیند لیکر
خواہش یہ دے گئی ہے کہ
کبھی____
رات کے اُس پہر
جب راہیں سنسان ہو
تاریکی کے بادل سیاہی اگل رہے ہو
میں___
تنہا گھر سے نکلوں
ننگے پاؤں
اتنا چلوں کہ___
پیروں کی نرمی آبلہ پا ہوکر
خون اگلنے لگے
پاؤں تھکنے لگے
میں چلتی رہوں__
اور چل کر گروں
گِروں اور گِر کر مُڑوں
اُس پَل
لمبی سٹرک کے آخری سرے سے
تُم___
مجھ سے ملنے کو آتے دِکھائی دو....
میں اُٹھوں
تُم پکارو___
میں پَلٹوں
تُم تڑپو
تُم ملنے کو آؤ
میں ملنے سے بھاگوں
تُم رؤو
میں دیکھوں
تُم بِلکوں
میں ٹھہروں
تُم بولو____
میں ہاروں
اور____
ہار کے ان لمحوں سے تھک کر
تُمہاری گود میں سَر رکھ کر
پُوری نیند سو لوں.....!!!!!!
فرح طاہر
******

کوئی شام ڈھلے
ہَم تُم سے مِلیں___
بَادل سے مِلتی سَت رَنگی دَھنک
بَارش سے مِل کر اُس رنگ بَرسے___
جِس رَنگ میں ہِجرکی آہ نِکلے
تِیری آنکھ میں وِصل کا دِیپ جلے___
مِیری آنکھ ہِجر کی نَاؤ بَنے___
تُم ہاتھ بڑھاؤ آغوش میں لو
مَیں بہت سَا تُم سے لَڑمَر لُوں
پھر بیٹھ مُقابل ہَم تُم جب
جو بَات کہیں وہ تَارے سُن کَر___
مَہتاب کِی ٹَھنڈی چَاندنی سے بھیگی آنکھوں فَریاد کریں___
اَب پھر سے ہِجر نہ اِن میں ہو
اَور وصلِ اَمر کی دُعا کریں__
اَےکاش کبھی تو ایسا ہو___
کوئی شام ڈھلے
ہَم تُم سے مِلیں___

فرح طاہر
****

وہ ہِجر جو ہَم پر لازِم تھا
ہَم اُس کو بہت مَلزُوم رہے
اِلزام مِلا پر جِیتے ہی رہے
اور جِی جِی کر رَنگ مَنظر کو دئیے
مَنظر میں ملا جب تُو ہَم کو
ہَم دل تو کیا جاں بھی یُوں ہارے
کہ ہار کی رَمز نے جِیوَن بن کر
تَیرے ساتھ کا اَمرت دان دیا
اَمرت کو پِیا تَیرا ساتھ مِلا
تَیرے ساتھ کو مِل کر ہَم کو یُوں لگا
اَب جِینا ہے ہَم جِی لیں گے
تَاروں پَر کَمنّد ڈال کر
چَاند کے فَاتح بَن جائیں گے
ہَم بَن جَاتے ہَم کر جاتے
مَگر وہ ہِجر جو ہَم پر لازم تھا
ہَم اس کو بہت ملزوم رہے
فرح طاہر
*********

مجھے مار گئی تیری چاہ پیا
وہ چاہ کہ جس کا پہلا نقطہ
میری "میں" کو مجھ سے چھین گیا
اور باقی نے تم سے مل کر____
میری انا پر ایسا وار کیا
کہ بھول گیا میں سب اپنی خودی
اور تم بن کر یوں سانس لیا
کہ سوچ کا ہر پیرہن
تیری چاہ میں بس یہ چاہنے لگا
تیری آنکھوں کی قندیل بنوں
تم سوؤں تو میں جاگ رہوں
تم ہنسوں میں دل کو تھام رہوں
اور ہنسی کی وہ جھنکار بنوں
کہ جس میں میری "میں" تم میں ڈھل کر___
جو چاہے وہ سب کر گزرے
میں کر گزروں مگر میرے کٹھور پیا
ایک تو اور تیری ظالم انا____
میری "چاہ" کی توہین کرے
اور عشق کو آبلہ پا کر کے
ہر جذبے کو سنگسار کرے
مگر دل___
پھر بھی تیری "چاہ" کرے
فرح طاہر
*******

.جینے کا تُو جواز تھا

تَیرے سنگ تھی جی رہی.....

مگر___

جینے کے اس جواز نے

جینے کی مات میں...!!!!!

تُجھے کھو کر یہ  ہوا  کہ____

آنکھیں تیری تلاش میں

بلکل ہی "مر" گئی

فرح طاہر
******

جانتے ہو___!!!!

تم سنگ

جینے کی آرزو نے

تُم بن____

مرنے کی دعا مانگی ہے

فرح طاہر
*****

مُجھ کو ملتا ہی نہیں

وہ گوشہِ تنہائی کہ____

جس کی دِیوار سے

سَر ٹیک کہ____

تَیری یادوں کے سہارے

عُمر بِیتَا دِی جَاۓ...!!!!

فرح طاہر
******

اُس کی آنکھیں___
وِصل کے اُس خواب جیسی ہے
جِس میں___
جُگنو
تِتلی
بَادل
بَارِش
دَھنک کے رَنگ
چَکوری عَشق میں ڈھل کر____
مِلن کی آس کے گھنگرو
لِپٹ کہ
مِثلِ پائل____
سِنّگھارِ عِشق___
کے "ع" جیسا آوارہ کرکے___
"ش" کے سانچے میں ڈھال کر
مِثل "ق"َ کرتی ہے
عِشق میں رَاکھ کرتی ہے
سَکون بَربَاد کَرتی ہے

فرح طاہر
*******

.تُم سے مِلنے کے
لَمحے تَک____

اَب عُمر کے ہَر لَمحے
کَو

ہَم___!!!!!!

گِن کَے گُزاریں گے

فرح طاہر
********

ﻣﺠﮭﮯ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮩﻨﺎ
ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮩﻨﺎ
ﮐﮧ __
ﺟﺐ ﺗﻢ ﯾﺎﺩ ﺁﺗﮯ ﮨﻮ
ﺗﺐ ____
ﺗﻤﮭﺎﺭﯼ ﯾﺎﺩ ﮐﯽ ﺷﺪﺕ __
ﻣﺠﮭﮯ ﺁﻧﺴﻮ ﺭﻻﺗﯽ ﮨﮯ __
ﻣﯿﺮﺍ ﺗﮑﯿﮧ ﺑﮭﮕﻮﺗﯽ ﮨﮯ __
ﻣﺠﮭﮯ ہنسنا ﺑُﮭﻼﺗﯽ ﮨﮯ ___
ﻣﺠﮭﮯ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮩﻨﺎ
ﮐﮧ .....
ﺗﻤﮭﯿﮟ ﺑﮭﻮﻟﻨﮯ ﮐﯽ ﺿﺪ ﻣﯿﮟ .....
ﻣﯿﺮﯼ ﺳﺎﻧﺴﯿﮟ ﺍﻟﺠﮫ ﮐﺮ ___
ﻣﺠﮭﮯ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺩﮐﮭﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ __
ﻣﺠﮭﮯ ﭘﮩﺮﻭﮞ ﺳﺘﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ __
ﭘﮭﺮ ___
ﺟﺐ
ﻣﯿﮟ ﺗﮭﮏ ﮐﺮ ﮔﺮﻧﮯ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﻮﮞ __
ﺍﺱ ﻟﻤﺤﮯ _
ﻭﮦ " ﺗﻢ " ﺑﻦ ﮐﺮ
ﺑﮩﺖ ﻧﺮﻣﯽ
ﺑﮩﺖ ﮔﺮﻣﯽ
ﺑﮩﺖ ﺩﻻﺭ ﺳﮯ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ
ﺑﮍﺍ ﮨﻨﺲ ﮐﮯ ...
ﺑﮍﺍ ﺳﺞ ﮐﮯ .....
ﯾﮧ ﺑﺎﻭﺭ ﮐﺮﺍﺗﯽ ﮨﮯ __
ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻢ ﯾﺎﺩ ﺁﺗﮯ ﮨﻮ __
ﺑﮩﺖ ﮨﯽ ﯾﺎﺩ ﺁﺗﮯ ﮨﻮ......!!!!!
فرح طاہر
**********

.انا وہ آگ ہے پیاری
کہ____
جس آگ میں جل کر
ﺑﭽﺎ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ
ﻣﻼ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ___
ﺍﻧﺎ ﻭﮦ ﺟﻨﮓ ﮨﮯ ﭘﯿﺎﺭﯼ
ﮐﮧ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺟﯿﺖ ﺟﺎﻧﮯ ﺗﮏ
ﺍﭘﻨﯽ ﺟﺎﻥ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ___
ﺍﻧﺎ ﻭﮦ ﮐﮭﯿﻞ ﮨﮯ ﭘﯿﺎﺭﯼ
ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﻭﻓﺎ ﮐﮯ ﮬﻮﺗﮯ ﮬﻮﮰ ﺑﮭﯽ ﺑﮯ ﻭﻓﺎﺋﯽ ﮐﺮﻧﺎ ﭘﮍﺗﯽ ﮨﮯ
ﻭﻓﺎ ﺟﺐ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻃﺮﻑ ﮨﯽ ﮬﻮ
ﺍﻧﺎ ﮔﺮ ﺑﯿﭻ ﺁﺟﺎﮰ
ﻭﻓﺎ ﺗﺐ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﺘﯽ
" ﺍﻧﺎ ﺑﺲ ﺟﯿﺖ ﺟﺎﺗﯽ ﮬﮯ "
فرح طاہر
*******

مجھے تُم بھول جاؤ گے
مجھے معلوم ہے لیکن___
تُمہیں میں بھول جاؤنگی
یہ کب کہا میں نے..؟؟؟؟
تُمہیں___!!!
میں یاد رکھوگی
اپنی اُن سبھی باتوں میں
جن کا ذکر صرف تُم ہو___
تمہاری فِکر سے جڑ کر
میری بِندیا,میرا جھمکا
میری پائل,میرا کاجل
تُمہیں__!!!
سب یاد رکھیں گی
تُمہیں میں یاد رکھوں گی
مگر____
اب ایسا ہوگا کہ
پلٹ کر جب تُم آؤ گے
محبت کی سبھی رسمیں
تُمہاری دی سبھی قسمیں
کنارہ کر چکی ہو گی
محبت ختم شُد ہو کر
کسک میں ڈھل چکی ہوگی
فرح طاہر
********

.تیرے نام کے ہجوں میں
میرے نام کےحَرفی نگینوں کو____
میں نے جذبوں سے تراشا تھا
اور تراشے اُن نگینوں سے ایک "محل" بنایا تھا
جہاں تُم سا ایک "راجہ"تھا
اور مجھ سی "وہ" رانی تھی
جو تتلی کے پروں جیسی ست رنگی ندی کنارے___
اُڑتی ہوئی زلفوں کو سمیت کر جب____
پانی میں اترتی تھی___
کُہساری کناروں سے "محبت" برستی تھی
سورج کی سنہری کرنیں اِٹھلا کر اترتی تھیں...
گلابوں کی نرم پتیاں لہرا کر چٹختی تھیں___
پرندوں کی زبانوں سے جو "دھن" بکھرتی تھی___
اس میں "رانی" کی اُس "راجہ" سے محبت کی نغمہ سرائی ابھرتی تھی___
اچھا تھا وہاں سب ہی,اور اچھی کہانی تھی
پھر ایسا ہوا ایک دن___
نیند کی دیوی نے "راجہ" کو سلایا
موقع سے مچل کر___
کہسار کے پیچھے سے ایک کانا دیو آیا___
جس نے اپنے بدنما پیروں کے گندے تلوؤں تلے رانی کی محبت کو مسل کر بہت کچلا___
اور لمبے ناخنوں سے رانی کی ہنسی کو بے دردی سے نوچا
پھر اس کے سمٹےہوۓ بالوں کو مٹھیوں میں جکڑ کر اُس زندان میں پٹخا___
جہاں اب "وہ" رانی ہے___
جو زندان کی کالی دیواروں پر اپنی تھکتی نگاہیں ٹِکاۓ___
راجہ کی بیداری کی آس میں پہلے تو سنورتی ہے___
پھر کانے دیو کی مکروہ ہنسی سن کرچپکے سے چٹختی ہے,بہت سارا تڑپتی ہے___
پھر نیند کی خواہش میں جاگتی آنکھوں سے خفا ہو کر خاموشی سے "جَگتی" ہے___!!!!!!
فرح طاہر
***********

."واپسی" کے تیرے ہر راستے پر
اَرمانوں کے دیپ جلا کر
"بیوہ آنکھوں" سے انگلی پر
دِنوں کی گنتی گُھوم پھیرا کر
ہِجر کے بانس میں ٹَانک رہی ہوں
مِلن کی "آس" کا ہر وہ موتی___
جن میں چھپی میری ہر "اُدھڑی" خواہش___
خواہش یہ کہ جب تُم آنا___
ساتھ سنگھار کو سنگ تُم لانا
غازہ,مہندی,چوڑی,کاجل___
ماتھے کی بندیا,پاؤں کی پائل
لا چکو تو دیکھ بھی لینا
گُدلا پڑتا وہ ریشمی جوڑا___
تُم بن جو مُرجھا کر اترا
دیکھ چُکو تو توڑ کر لانا
فَلک پر چمکتا اَیک آدھ تارا
اُسے مانگ میں بھر کر سامنے آنا___
پھر مُجھ پر گزرے ہِجر کے ساغر کو چَکھ کر بتانا___
تُم بن مجھ پر کیسی گزری
کالی رَاتیں
پھیکی بَارش
اور بَتا سکوں تو یہ بھی بتانا
تُم بِن مُجھ پر جو بھی گزری___
گر تُم پر گزرتی تُم جِی لیتے__؟؟؟
فرح طاہر
*******

مبحت اجنبی میری
وہ اکثر مچھ سے کہتی تھی
میں تم سے پیار کرتی ہوں
میں تم بن جی نہیں سکتی
میں تم سے بچھڑی تو
ہاں شاید مر ہی جاؤں گی
میں تنہا جی نہیں پاؤں گی
میرا دل اس کو سنتا تھا
بھروسہ پر نا کرتا تھا
اچانک میں نے یہ سوچا
محبت آزمائیں تو-------!!!
جدا ہم اس سے ہو جائیں
بچھڑنے سے زرا پہلے
جو پوچھا میں نے اس سے کہ
چنو مچھ کو یا جیون کو
یہ سن کر چل دی آگے وہ
محبت آشنا سے اجنبی لمحوں میں ہوتی ہے
فرح طاہر
*******

وہ مجھے چھوڑ بھی جاۓ
مگن دنیا میں ہو جاۓ
گر وہ مجھے بھول بھی جاۓ
تو مر میں بھی ناں جاؤں گی
میں پوری جان سے اس کو___
جی کر دکھاؤں گی
فقط اتنا ہو گا کہ___
میں خود کو بھول جاؤں گی
فرح طاہر

22.مُجھ کو ملتا ہی نہیں

وہ گوشہِ تنہائی کہ____

جس کی دِیوار سے

سَر ٹیک کہ____

تَیری یادوں کے سہارے

عُمر بِیتَا دِی جَاۓ...!!!!

فرح طاہر
*******

میں نے جب بھی تُمہیں سوچا
ہر لفظ "مُحبت" لکھا___
میں نے لکھا کہ تُم محبت ہو
تو میں نے مُجھ کو فقط "دَاسی" تُمہاری لکھا__
میں نے لکھا کہ تُم فلک کے "تَارے" ہو
تو میں نے مُجھ کو اُس تَارے کا ایک "کِنارا" لکھا___
میں نے لکھا کہ تُم سے ملنے کی چاہ ہے
تو میں نے میری "چاہ" کو ہِجر کا دریا لکھا___
میں نے چاہا کہ میں پھر سے لکھوں میرے لفظوں کا "مَہکتا جَنگل"
مگر میں نے ہر بار درد کے کَرب کو تروتازہ لکھا___
میں نے چاہا کہ تُم سے ملنے کی رُودَاد کو سُہنری حرفوں کا سَمندر لکھ دوں
مگر میرے لکھنے کے قلم نے ہر بار تِشنگی کا کنارا لکھا___
میں نے چاہا کہ میں لکھ کر تصور کر لوں___
ہِجر کے دریا کو دَرد کی کناؤ سے پاٹ کر تُمہارے آنے کی گھڑی____
اور اس گھڑی میں,مَیں نے مُجھ کو گُلابوں سے آراستہ بس اِک رستہ لکھا___
میں نے چاہا کہ تُمہیں لکھ کر قَلمبند کرلوں__
مگر میرے قلم کی سِیاہی نے مُجھے "پَاگل" لکھا
میں نے چاہا کہ تُم کو فقط "مَیرا" لکھوں
مگر میرے قلم نے ہمیشہ مُجھ کو تُمہارا لکھا___
فرح طاہر



*************

No comments:

Post a Comment