نظم
"وقت"
وقت
کی ریت کو
ہاتھوں
کی ہتھیلیوں سے
یوں
تو پھسل ہی جانا ہے
تو
کیوں نہ وقت کے
کچھ
لمحوں کو
تباہ
ہونے سے ہم بچا کر
کسی
کے دل میں امید کی
کِرن
کو ہم جگا کر
کسی
کو حوصلہ دے کر
لفظوں
سے مَرہم رکھ کر
درد
دوسروں کا بانٹ لیں
بوجھ
اُوروں کا اٹھا لیں
دلوں
میں باتیں رکھنے میں
ریاکارانہ
مسکراہٹوں میں
پیٹھ
پیچھے چالیں چلنے میں
بےمُول
کسی کوکرنے میں
آخر
رکھا ہی کیا ہے؟؟
وقت
نے بَرف کی مانند
یوں
تو پگھل ہی جانا ہے
ز قلم: فاطمہ لیاقت ا
No comments:
Post a Comment