بس اب ہم بھی بدل جائیں گے
دنیا والے اچھا جانیں یا برا جانیں
زندگی ہم اب اپنی خود گزاریں گے
اب روش بدلہ لینے کی بدلنی ہو گی
دل پہ بس اب زخم کھائی جائیں گے
آنکھ اور خاموشی میں چھپے درد کو
جان کر بھی لوگ انجان بن جائیں گے
خود غرضی دستور ہے اس زمانے کا
اب ہم کسی سے گلہ کر نہ پائیں گے
ذرا سی تکلیف پہ رو پڑنے والے بھی
دوسروں کے غم کو ہلکا ہی جانیں گے
جو چھوڑ کے ہمیں جانا چاہے اجازت ہے
لوٹ کے آنے کے انتظار میں نہ پائیں گے
No comments:
Post a Comment