تمہارے پاس تو ہر وقت کوئی نہ کوئی بہانہ تھا
مُجھے پھر دل بھی تو کہیں اور لگانا تھا۔
سنا تھا دو کشتیوں کے سوار ڈوب جاتے ہیں ۔
مُجھے پہلی فُرصت میں تمہیں دل سے نکالنا تھا۔
تمہارے تحفے رکھ کر کیا کرتا میں۔
مُجھے اُن کو بھی دریا میں بہانا تھا۔
تمہارے ساتھ تھا تو اُلجھا ہوا تھا میں۔
مُجھے آخر خود کو بھی تو سنوارنا تھا۔
کب تک يوں چُپ رہ کر تیرا ہی دُکھ مناتا رہتا احسن۔
مجھے اُس کی خاطر کُچھ تو گنگنانا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
No comments:
Post a Comment