نہ معلوم تھا کیا ؟ زندگی کا عنوان ہوگا
کبھی
آنکھ نم ،کبھی دل پریشان ہو گا
چُنیں گے ہم
! جن
راہوں کو
کیا
؟ ان پہ
۔۔۔ چلنا آسان ہو گا
نشانِ منزل۔۔۔
۔۔ سراب ما نند
یوں قدم ۔۔۔قدم
، پہ امتحان ہوگا
فریب،
الفت کو سمجھا خلوص ہم نے
لگامطلب
سے ہر شخص انجان ہوگا
نکلے نہ باہر ،کبھی !
اپنی ہی دنیا سے
کیا
پتہ تھا ہر شخص ،مانند حیوان ہو گا
کھاکےٹھوکر
، بھی دیا ۔۔تھا موقع
کچھ،
تو کسی میں ۔۔۔۔ایمان
ہو گا
لکیروں
سےہٹ کےجو چلناتھاسیکھا
کبھی
تھک کے ،گرنے کاامکان ہوگا
ہو چکے۔۔۔
بیزار ! دنیا سے اتنا
اب
ہم سے
نہ ، جینے کا سامان
ہوگا
جب
ہم گئےتو سب کچھ ویران ہوگا
وسطِ
آفاق میں ہمارا ۔۔ایوان ہوگا
*************
No comments:
Post a Comment