چلو پھر سے شروعات کرتے ہیں
ذرا آٶ پہلی ملاقات کرتے ہیں
خو تو ہماری وہی ہے مگر
نۓ گلے نۓ اعتراضات کرتے ہیں
اسی روش پہ چلتے ہوۓ رہبر
نۓ شکوے نۓ شاٸبات کرتے ہیں
ربط کی سنگینی میں کچھ کمی لاٸیں
وقت میں پیدا نۓ لمحات کرتے ہیں
ہم تیری گلیوں سے گذرتے ہوۓ جاناں
چلو آج اک نٸ واردات کرتے ہیں
تیری محفل پہنچے ہیں اے اب کہ
خامشی میں ہی شکایات کرتے ہیں
دل لگی بھی رگِ جاں سے منسلک اپنی
اس دور میں بھی معاشقات کرتے ہیں
تیری سلطنت تری تمکنت سے ہٹ کے
چلو آج کوٸ نٸ بات کرتے ہیں
تیری یاد کی رو میں بہنے کے لۓ وقف
یہ شام کیا ساری رات کرتے ہیں
No comments:
Post a Comment