جہاں آخری بار ملے تھےعرصہ ہوا ہم وہیں پڑے ہیں
جہاں تم بٹھا گۓ تھےآ دیکھ لے اب بھی وہیں پڑے ہیں
مدعے پر بھی نہ آۓ تھے کہ تلخ بحث ہو گٸ
وہیں میز پر چاۓ کے دو کپ بھرے پڑے ہیں
کہیں پلٹ نہ آٶ تم میرے در کے رستے سے
اسی خوف سے،عمر ہوٸ،تیری چوکھٹ پہ پڑے ہیں
ہمیں جچتا ہی نہیں کہ ہار کر رستہ بدلیں
مدت ہوٸ ایک ہی چوٹی کے قدموں میں پڑے ہیں
وہ جو بڑی چاہت سے گھر بلایا کرتے تھے کبھی
انہیں کی محفل میں ٹھکراۓ گۓ، بے توقیر پڑے ہیں
ہمھی پہچان نہ سکے تم تو صاف برے دکھتے تھے
اب اپنی ہی نظروں میں بری طرح گرے پڑے ہیں
اچھے وقتوں میں جو قول و قرار کیا کرتے تھے
وہ سب قسمیں،سب وعدیں دھرے کے دھرے پڑے ہیں
یہ گوارا ہی نہیں کہ میرا بوجھ اٹھایٸں غیر
خود اپنی قبر میں ، کفن میں لپٹے پڑے ہیں
No comments:
Post a Comment