ادھورا خواب
ہاتھوں میں میکینک کے اوزار لیے
کہیں ہوٹل میں برتنوں کے انبار لیے
کہیں چھوٹے کی ہے پکار
تو
کہیں گالیوں کی ہے بوچھاڑ
یہ اس وطن کے ہیں نوخیز گلاب
ان کی آنکھوں میں بھی ہیں ادھورے خواب
سکول جاتے بچوں کو دیکھ کے
ان کی آنکھوں میں ستارے جھلملاتے ہیں
خواہشوں کے دیپ جگمگاتے ہیں
تعلیم کو عام کرنا ہے
ہم نے مل کے اب یہ کام کرنا ہے
ذاتوں کا فرق تمام کرنا ہے
اے اس وطن کے نو خیز گلاب
پورے ہوں گے اب تیرے خواب
(وفا)
ہاتھوں میں میکینک کے اوزار لیے
کہیں ہوٹل میں برتنوں کے انبار لیے
کہیں چھوٹے کی ہے پکار
تو
کہیں گالیوں کی ہے بوچھاڑ
یہ اس وطن کے ہیں نوخیز گلاب
ان کی آنکھوں میں بھی ہیں ادھورے خواب
سکول جاتے بچوں کو دیکھ کے
ان کی آنکھوں میں ستارے جھلملاتے ہیں
خواہشوں کے دیپ جگمگاتے ہیں
تعلیم کو عام کرنا ہے
ہم نے مل کے اب یہ کام کرنا ہے
ذاتوں کا فرق تمام کرنا ہے
اے اس وطن کے نو خیز گلاب
پورے ہوں گے اب تیرے خواب
(وفا)
No comments:
Post a Comment