تمھارے متعلق میرے
خواب کو تعبیر کیوں ملے
ابھی تو خود سے ہی
بچھڑنے کا ارادہ نہیں کیا
میلوں چلے پاؤں کا
درد دل ہی کیوں سہے
خیر مرہم کا تو تم نے بھی
وعدہ نہیں کیا
بہت ہے آرزو کہ مدعو
ہوں ہم تیری محفل میں
مگر شاید ابھی رقیب کو
آمادہ نہیں کیا
روٹھ جائیں کیا اپنی
ہی بے رخی سے ہم
اس نیک دل گناہ کا
پر ارادہ نہیں کیا
آب حیات بکنے لگا ہے مرگ
کے لیے
تیرے انجام کی خاطر
استفادہ نہیں کیا
صہاغشہہ
No comments:
Post a Comment