ہجر کے بے صدا جزیرے
پر
کنج تنہائی میں کوئی
لڑکی
خال و خد پر لگا کے
آس کا رنگ
چشم و لب پر سجا کے
دل کی امنگ
آنکھوں آنکھوں میں
مسکراتی ہے
شام کی سرمئی اداسی
میں
اپنی تصویر خود بناتی
ہے
ادھ کھلے ہونٹ نیم
وا آنکھیں
بے نوا ہونٹ بے صدا
آنکھیں
ایسی خاموشی ایسی تنہائی
خود تماشا ہے خود تماشائی
خود ہی تصویر خود مصور
ہے
خود غزل اور خود ہی
شاعر ہے
سوچتی ہے کہ جس کے
ہجر میں میں
شمع سی صبح و شام جلتی
ہوں
موم سی رات دن پگھلتی
ہوں
کاش وہ میری روشنی
دیکھے
میری آنکھوں کی ان
کہی سمجھے
میرے تن من کی بے بسی
دیکھے
جتنی شدت سے خود کو
دیکھتی ہوں
کاش وہ بھی مجھے کبھی
دیکھے
****************
صہاغشہہ
No comments:
Post a Comment