میں توایک کاغذی پھول تھا ، سرِ شام خو شبو سے بھر گیا
میں کہاں ہوں مجھ کو خبر نہیں ، مجھے کون چھو کے گزرگیا
وہ اُداس لڑکی ، بہار لائی پہاڑوں سے زمین پر
مرے دل میں درد کا چاند بھی یونہی زینہ زینہ اتر گیا
یہ گلاب بھی مرا عکس ہے، یہ ستارہ بھی مرانقش ہے
میں کبھی زمین میں دفن ہوں، کبھی آسماں سے گزر گی
ا
میں اُداس چاند کا باغ ہوں، میں گئے دنوں کا سُر اغ ہوں
مری شاخ شاخ جھلس گئی ، مرا پھول پھول بکھر گیا
وہ سفید پھولوں سی اِک دُعا مرے ساتھ ساتھ رہی سدا
یہ اسی کا فیض ہے بارہا میں بکھر بکھر کے سنور گیا
مرے آنسوؤں کی کتاب بھی ، تیری خو شبو ؤں سے مہک گئی
مر ا شعر ہے ترا آئینہ جہاں شام آئی سنور گیا
No comments:
Post a Comment