باپ__کیوں مر جاتے ھیں ؟
جب کبھی اعلان ھوتا کہ فلاں کے والد فوت ھو گئے ھیں
تو میں دوڑ کر گھر آتی
ابو کے دامن سے لپٹ جاتی تھی
ابوکبھی غصہ بھی ھو جاتے
کملی ایں توں
کی ھویا ای__؟
میں اظہار سے ڈرتی تھی
موت کے نام سے ڈر جاتی
ماں کے بعد ہر چیز سے ڈرتی تھی میں
کبھی کبھی میں سوچتی تھی کہ میں اپنے ابو سے پہلے مر جاؤں گی
لیکن پھر سوچتی کہ ابو بھی تو روئے گے لیکن پھر اگلے ہی لمحے سوچتی کہ ابو کے تو بیٹے بھی ہیں
میرے پاس تو ایک ہی ابو ھیں۔۔میرے پاس تو ماں بھی نہیں رہی
رات کو ضد کرکے ابو کے پاس سو جاتی
ابو دوسری طرف منہ کرکے سوتے تو میں ابو کے اپنی طرف منہ کرنے تک جاگتی رہتی اور جیسے ہی ابو میری طرف منہ کرتے تو ماں کے بعد ابو کی سانسیں مجھے تپتے صحرا میں بادصبا کے جھونکوں کی طرح محسوس ھوتیں
ابو کے جسم کی خوشبو مجھے مشک و عنبر سے زیادہ بھلی لگتی
اُس دن نہ جانے کیوں میرے پاؤں منوں وزنی لگ رھے تھے
ابو مجھے الوداع کہنے دروازے تک آئے
میں گلی کی نکڑ مڑ چکی تھی
لیکن میں دوڑ کر واپس آیی تو ابو گلی کی نکڑ کے قریب تک آ پہنچےتھے
میں نے دوڑ کر ابو کو گلے لگا لیا ۔
آج جیسی بے چینی مجھے کبھی محسوس نہیں ھوئی تھی
ابو نے کہا جاؤ
اکیڈمی میں بہت کام ھو گا تجھے
آخری بات ابو کی آج بھی مجھے رُلا دیتی ھے
مائدہ کتھے ہے توں۔۔ تیری آواز نئیں آندی
اور آج میں سوچتی ھوں
ماں اور ابو کہاں ھو تمہاری آوازیں کیوں نہیں آتیں
اور لائن کٹ گئی
شام کو ابو چلے گئے میری ماں کے پاس
لائن ہمیشہ کیلئے کٹ گئی
لیکن دعاؤں کی لائن تو کبھی نہیں ٹوٹی نا
اگر تقدیر اجازت دیتی
تیرے ساتھ اتر جاتی میں...قبر میں
جہاں میرے ماں باپ سوتے ہیں اب ابدی نیند۔۔
جن کے ہونے سے میں قیمتی تھی۔۔
میں لاڈلی تھی۔۔۔اب یتیم ہوگئی ہوں
کیونکہ باپ کا سایہ نہیں رہا
نہ ماں کا شفقت بھرا پیار۔۔۔
از۔قلم مائدہ انوار
جب کبھی اعلان ھوتا کہ فلاں کے والد فوت ھو گئے ھیں
تو میں دوڑ کر گھر آتی
ابو کے دامن سے لپٹ جاتی تھی
ابوکبھی غصہ بھی ھو جاتے
کملی ایں توں
کی ھویا ای__؟
میں اظہار سے ڈرتی تھی
موت کے نام سے ڈر جاتی
ماں کے بعد ہر چیز سے ڈرتی تھی میں
کبھی کبھی میں سوچتی تھی کہ میں اپنے ابو سے پہلے مر جاؤں گی
لیکن پھر سوچتی کہ ابو بھی تو روئے گے لیکن پھر اگلے ہی لمحے سوچتی کہ ابو کے تو بیٹے بھی ہیں
میرے پاس تو ایک ہی ابو ھیں۔۔میرے پاس تو ماں بھی نہیں رہی
رات کو ضد کرکے ابو کے پاس سو جاتی
ابو دوسری طرف منہ کرکے سوتے تو میں ابو کے اپنی طرف منہ کرنے تک جاگتی رہتی اور جیسے ہی ابو میری طرف منہ کرتے تو ماں کے بعد ابو کی سانسیں مجھے تپتے صحرا میں بادصبا کے جھونکوں کی طرح محسوس ھوتیں
ابو کے جسم کی خوشبو مجھے مشک و عنبر سے زیادہ بھلی لگتی
اُس دن نہ جانے کیوں میرے پاؤں منوں وزنی لگ رھے تھے
ابو مجھے الوداع کہنے دروازے تک آئے
میں گلی کی نکڑ مڑ چکی تھی
لیکن میں دوڑ کر واپس آیی تو ابو گلی کی نکڑ کے قریب تک آ پہنچےتھے
میں نے دوڑ کر ابو کو گلے لگا لیا ۔
آج جیسی بے چینی مجھے کبھی محسوس نہیں ھوئی تھی
ابو نے کہا جاؤ
اکیڈمی میں بہت کام ھو گا تجھے
آخری بات ابو کی آج بھی مجھے رُلا دیتی ھے
مائدہ کتھے ہے توں۔۔ تیری آواز نئیں آندی
اور آج میں سوچتی ھوں
ماں اور ابو کہاں ھو تمہاری آوازیں کیوں نہیں آتیں
اور لائن کٹ گئی
شام کو ابو چلے گئے میری ماں کے پاس
لائن ہمیشہ کیلئے کٹ گئی
لیکن دعاؤں کی لائن تو کبھی نہیں ٹوٹی نا
اگر تقدیر اجازت دیتی
تیرے ساتھ اتر جاتی میں...قبر میں
جہاں میرے ماں باپ سوتے ہیں اب ابدی نیند۔۔
جن کے ہونے سے میں قیمتی تھی۔۔
میں لاڈلی تھی۔۔۔اب یتیم ہوگئی ہوں
کیونکہ باپ کا سایہ نہیں رہا
نہ ماں کا شفقت بھرا پیار۔۔۔
از۔قلم مائدہ انوار
No comments:
Post a Comment