یادوں کی حفاظت کیا کرنا
شب بھر کی اداسی بے معنی
بے کار ریاضت کیا کرنا
کیوں تجھ کو پکارا چاہت سے
خواہش پہ ملامت کیا کرنا
الفت کی امیدیں چھوٹ گئیں
یک طرفہ محبت کیا کرنا
کچھ کالی بھوری آنکھیں تھیں
سازش کی شکایت کیا کرنا
ہے دل میں گماں پر لب پہ قفل
بے کار کی حجت کیا کرنا
آزاد رہیں میرے سان و گمان
پابند سلاسل کیا کرنا
یہ جور و ستم یہ درد و الم
پر جاؤ! شکایت کیا کرنا
اب چپ بھی رہو تم اے لوگو!
اتنی بھی بغاوت کیا کرنا
احساسں ندامت کیا کہیے
اک حرفِ دعا کا کیا کرنا
دل لہو لہو لب سلے سلے
اب اور عنایت کیا کرنا
سر پھوڑ لیا دل مار لیا
اب اور کیا کہنا کیا کرنا
ہے ایک حقیقت دل کی لگی
پر تم یہ حماقت نہ کرنا
آزار سہی پر ڈٹے رہو
ظالم کی حمایت کیا کرنا
یہ اہل جہل ہیں ستم ظریف
لفظوں کو بے حرمت کیا کرنا
اب فضؔہ چلیں اس بستی سے
پتھر کی عبادت کیا کرنا
No comments:
Post a Comment