میں
کئی بار ٹوٹ کر بکھری
خود
کو کھو کر بکھری
زندگی
سے لڑ کر بکھری
موت
کی خواہش میں بکھری
مگر
ہمیشہ یہ ریت رہی ہے
میں
جب بھی بکھری تب ہی سمٹی
خود
کو کھو کے میں نے جانا
کوئی
تو ہے جو ساتھ ہے میرے
سردو
گرم زمانے میں
ہواؤں
کے بدلتے رخوں میں
سب
کچھ کھو کے میں نے جانا
وہ
رحیم ہے وہ کریم ہے
وہ
علیم ہے وہ عظیم ہے
وہ
نصیر ہے وہ قدیر ہے
وہ
میری شاہ رگ سے بھی قریب ہے
وہ
بچاتا ہے وہ سمیٹتا ہے
جب
بھی بکھروں تو دیتا ہے صدا
میری
رحمت سے مایوس مت ہونا
از
قلم صباء معراج
No comments:
Post a Comment