اپنی زات کو نہ اور کوٸی خول دوں
تو کہے تو ہر ایک راز کو کھول دوں
عریاں ہو کر تن سے لباس کھینچ کر
ایسی محبت کا تجھے کیسے قول دوں
تیری ہر بات ہو صرف حرفِ آخر
کیسے تیری ہاں میں 'میں' ہاں بول دوں
عشق کے جانے کیا کیا ہیں اب تقاضے
حسن کو کیسے یوں مٹّی میں رول دوں
خُدارا اِس کو تم محبت کا نام دے کر
اور تو نہ تم کہانی میں جھول دوں
باز آٸے ہم تو ایسی الفت سے سرکش
گر شہد یہ ہےتو ہمارے لٸے زہر گھول دوں
از قلم: سرکش
No comments:
Post a Comment