صراطِ
مستقیم"
اک
شخص آج ملا مجھ کو
اک
نظر دیکھ کے مجھ کو
میری
آنکھوں کو پڑھنے لگا وہ
ویرانی
دیکھی جو اس نے میری
تو
کچھ سوال کرنے لگا وہ۔۔۔
ابھی
بھی محبت ہے تمہیں اس سے؟
مجھ
سے یہ پوچھنے لگا وہ۔۔۔
یہ
پلکیں کس قحط سے سوکھیں؟
روح
کی اذیت جاننے لگا وہ۔۔۔
سوجھے
ہوئے پپوٹے دیکھ کر
رتجگوں
کی پہیلیاں بوجھنے لگا وہ۔۔۔۔
کیا
اب بھی اس کی ہی چاہ تمہیں ہے؟
میرے
دل میں جھانکنے لگا وہ۔
۔۔
کیوں
بِچھاتی ہو چوکھٹ پہ متلاشی آنکھیں؟
میرے
انتظار کو لاحاصل کہنے لگا وہ۔۔۔
میں
بدستور چپ تھی ایسے جیسے۔۔۔
وہ
کسی اور کا ماضی کھنگال رہا ہو
وہ
کسی اور کے بابت پوچھ رہا ہو۔۔۔
پھر
اک سرد آہ بھر کر اس نے ۔۔
مجھےجوگن
سمجھ کے اس نے
نصیحتوں کا انبار کھولا
بولا
یہ دنیا تو ہے اک کھیل تماشہ۔
بسا
ہے اس میں فریب سارا۔
کیوں
تم نے اس سے دھوکا کھایا؟
عمر
بھر کا عزاب پایا۔۔۔
میں
جانتا ہوں ہر اک نے تجھ کو
اپنے
مفاد کے لئے اپنایا
تو
بھول جا سب ماضی کے قصے
فراموش
کر جتنا بھی درد پایا
بنا
لے پتھر دل خود کو۔
بھگا
دے دل سے ہر اک سایہ
میں
نے نظر اٹھا کے اس سے کہا۔
جو
کہہ رہا ہے تُو وہ کٹھن بہت ہے۔
میرے
لئے یہ ناممکن ہے۔۔۔
دھیرے
سے ہنس کے مجھ سے پھر وہ بولا
زندگی
میں کیا ہے جو ناممکن ہے؟
خود
پہ خول چڑھا کے دیکھو۔
لوگوں
کو دل سے نکال کے دیکھو۔
رب
کو دل میں بسا کے دیکھو۔
سکون
کی تلاش میں بٹھک رہی ہو
۔رب
کے در پہ جاکے لو رب سے لگا کے دیکھو
دنیا
کو دل سے نکال کے دیکھو
سجدوں
میں گڑگڑا کے دیکھو
خدا
کی محبت کو پاکر دیکھو
بھول
جاو گی عشق مجازی
عشق
حقیقی میں سرکو جھکا کے دیکھو۔
سمجھا
کے مجھے زندگی کی یہ حقیقت
اپنے
رستے پہ چل دیا وہ۔۔۔
چھوڑ
کے مجھے گہری سوچ میں ڈوبا
اپنی
منزل پہ چل دیا وہ۔۔۔
رواں
ہیں آنسو میری پلکوں سے
نگاہ
ہے میری آسماں پہ
مشکور
ہوں رب کی جو مجھے غفلتوں سے نکال لایا
پھر
سے جینے کا ڈھنگ سکھایا۔
میں بھٹک گئ تھی رستے سے
خدا
نے مجھے صراطِ مستقیم دیکھایا۔
ازقلم:
حیا گُل
No comments:
Post a Comment