سنو
میں بہت بدل چکی ہوں
ماضی
میں جھانکنا چھوڑ چکی ہوں
جو
لوگ تھے میری سانسوں میں بسے
ان
سے ناطہ توڑ چکی ہوں
بنا
جن کے جینا دشوار تھا
بنا
ان کے جینا سیکھ چکی ہوں
خود
سے بڑھ کے پروا تھی جنکی مجھے
میں
فکر ان کی کرنا چھوڑ چکی ہوں،،
دیکھو
میں بہت بدل چکی ہوں،،
رات
دن تھے جو میری یادوں میں بسے
دیکھو
میں انہیں بھول چکی ہوں،،
مشکل
کہاں تھا بے مروت بننا،،
میں
بےرخی کی چادر اڑھ چکی ہوں
دیکھو
میں خود کو بدل چکی ہوں
میں
ماضی کے دریچوں کو بند کر کے
حال
کی کھڑکیوں کو کھول چکی ہوں
دوسروں
کی ذات سے نکل کے میں
خود
میں مگن ہو چکی ہوں
اب
نہ آنکھوں میں اشک نہ لبوں پہ ہنسی،،
میں
ہر احساس کھو چکی ہوں
تم
جو کہتے تھے میں نہیں بدل سکتی ،،
آو
دیکھاوں تمھیں کتنا بدل چکی ہوں،،
ازقلم:حیا
گل
Ek ek lafz such a he
ReplyDeleteBoht pyara likha aap ne.
ReplyDelete