"آؤ مر جائیں"
"آؤ مر جائیں"
ذرا تُو بھی وقت نکال کے
کبھی آ
کہ دونوں ہی مر مٹیں
کبھی ایک دوجے پہ مر مٹیں
تو سدا کے واسطے جی اٹھیں
کبھی آتماؤں کو ضم کریں
انہیں دو سے ایک کریں کبھی
کبھی آ
کہ بھولیں یہ ذات بھی کوئی چیز ہے
کبھی آ
کہ بھولیں یہ رات بھی کوئی چیز ہے
کبھی آ
کہ پیار کریں
اور اتنا کریں کہ پھر
جو قدورتوں کے جہان ہیں
وہاں تیرگی کو زوال ہو
کبھی خود کو بھول کے آ
کہ یاد رہوں تجھے
یہ یہاں وہاں
یہ اِدھر اُدھر
کوئی سانس لینا بھی جینا ہے
نہیں صندلیں!
نہیں یہ تو جینا نہیں ہے
یہ تو عجیب طرز کی موت ہے
یہاں آ
کہ سانس کا مول ہو
یہاں آ
کہ درد بھی ڈھل سکیں
کبھی زخم لہجہ بدل سکیں
کبھی آ
کہ دونوں ہی مر مٹیں
تو سدا کے واسطے جی اُٹھیں..
شاعر: زین شکیل
No comments:
Post a Comment