مجھ کو اپنے آپ سے بچھڑے ہوئے
طلب کی ریت پر تنہائی ننگے پیر چلتی ہے
تو میرا دل وصالِ معنی سے بچھڑے ہوئے
اک حرفِ تنہا کی طرح بجھ جاتا ہے
تو کوئی بھی اک لبریز لمحہ جسم سے باہر نہیں آتا
مرے احوال کی تمہید باندھتا ہے
یہی ہوتا ہے میری آرزو کے سب سِرے
حسرت کی تاروں میں اُلجھ کر
میرے اندر سانس تو لیتے ہیں
لیکن تیرے دل سے میرے دل تک
وہ جوں کی توں ہمارے درمیاں
وہ تنہائی وہ برسوں کی خموشی
(جوگماں کی دھند میں لپٹی ہوئی ہے)
میرا سایہ بن کے میرے ساتھ رہتی ہے
دلِ خاموش اس سب سلسلے سے تھک گیا ہے
اس سے پہلے لاتعلق اور لمبی تلخیوں کی
تیری چاہت اور سنگت میں مہکنا چاہتی ہوں۔۔۔
No comments:
Post a Comment