تمام یادیں مہک رہی ہیں، ہر ایک غنچہ کھلا ہوا ہے
زمانہ بیتا مگر گماں ہے کہ آج ہی وہ جدا ہوا ہے
یہ سچ ہے کھائے ہیں میں نے دھوکے، مگر نہ چاہت سے کوئی روکے
بجھے بجھے سے چراغِ دل میں بھی ایک شعلہ چھپا ہوا ہے
کچھ اور رسوا کرو ابھی مجھ کو تا کوئی پردہ رہ نہ جائے
مجھے محبّت نہیں جنوں ہے، جنوں کا کب حق ادا ہوا ہے
میں اور خود سر، میں اور سر کش، ہوا ہوں تلقینِ مصلحت سے
مجھے نہ اس طرح کوئی چھیڑے، یہ دل بہت ہی دکھا ہوا ہے
ملا جو اک لمحۂ محبّت، یہ پوچھ اس کی ہے کتنی قیمت
اب ایسے لمحوں کا تذکرہ کیا، کبھی جو وہ بے وفا ہوا ہے
یہ درد ابھرا ہے عہدِ گل میں، خدا کرے جلد رنگ لائے
نہ جانے کب سے سلگ رہا ہے، نہ جانے کب کا دبا ہوا ہے
وفا میں برباد ہو کے بھی آج زندہ رہنے کی سوچتے ہیں
نئے زمانے میں اہلِ دل کا بھی حوصلہ کچھ بڑھا ہوا ہے
ہر ایک لَے میری اکھڑی اکھڑی سی، دل کا ہر تار جیسے زخمی
یہ کون سی آگ جل رہی ہے، یہ میرے گیتوں کو کیا ہوا ہے
No comments:
Post a Comment