سائیاں ہم سے بھول ہوئی ہے
سائیاں ہم سے بھول ہوئی ہے
اپنے رحم کرم کی بارش ہم پر بھی برساؤ ناں
سینے ہمیں لگاؤ ناں!
سائیاں ہم کو دانائی نے اتنے زخم لگا ڈالے ہیں
ہم گھاٹے کے سودے میں تھے
کتنی راتیں جاگ جاگ کر کاٹیں لیکن ہم نے سائیاں عشق کا بھید نہ پایا
بس نقصان کمایا ....
لوگوں نے بھی جب جب چاہا ہم کو کتنے دوش دیے اور
ہم الزاموں کی گٹھڑی کو لادے ان نازک کندھوں پر جانے کس کس نگری گھومے
کیسی کیسی تہمت جھیلی
کچھ بھی ہاتھ نہ آیا
بس نقصان کمایا سائیاں
اپنا آپ گنوایا...
ہم سے موسم، بادل، بارش سب کے سب ناراض ہوئے ہیں
صندل سی خوشبو میں سائیاں گھلی ملی اک سَچّی، سُچّی
میٹھی بات سناؤ ناں...
دل کا درد مٹاؤ ناں!
معاف کرو تقصیریں ساری
دیکھو ناں ہم خود سے کتنے عاجز آئے۔۔۔دنیا سے بیزار ہوئے ہیں!
ہم کتنے بیمار ہوئے ہیں۔۔۔
دکھ کا بوجھ گھٹاؤ ناں!
سکھ دینے آجاؤ ناں!
سائیاں پاس تو آؤ ناں!
ہم دانائی کے دھوکے میں پچھلی عمر بِتا آئے ہیں...
یعنی عمر گنوا آئے ہیں
سائیاں ہم سے بھول ہوئی ہے
ہم نے عشق کا بھید نہ پایا..
اپنے رحم کرم کی بارش ہم پر بھی برساؤ ناں
دل میں آن سماؤ ناں!
تجھ میں اپنا آپ فنا کر دینے کو ہم حاضر سائیاں
اپنے صادق، سُچے، سوہنے، مٹھڑے ہونٹ ہلاؤ ناں! ِ
اب تو "کُن" فرماؤ ناں!
سینے ہمیں لگاؤ ناں!
زین شکیل
No comments:
Post a Comment