جسے خود سے ہی نہیں فرصتیں،جسے دھیان اپنے جمال کا
اسے کیا خبر مرے شوق کی،اسے کیا پتا مرے حال کا
مرے کوچہ گرد نے لوٹ کر مرے دل پہ اشک گرا دیا
اسے ایک پل نے مٹا دیا جو حساب تھا مہ و سال کا
تجھے شوق دید غروب ہے،مری آنکھ دیکھ بھری ہوئی
کہیں تیرے ہجر کی تیرگی کہیں رنگ میرے ملال کا
شب انتظار وہ مہ لقا،جونہی میرے سامنے آگیا
مجھے کوئی ہوش نہیں رہا،نہ جواب کا نہ سوال کا
کبھی حال ہجر کہا نہیں،وہ ملا تو لفظ ملا نہیں
کہیں گفتگو ہی میں کھو گیا،جو معاملہ تھا وصال کا
جسے وقت جان غزل کہے،جو چلے تو شام کھڑی رہے
وہی میرے لفظ کا رنگ ہے،وہی روپ میرے خیال کا
No comments:
Post a Comment