بچھڑ کے تجھ سے یہ سوچوں کہ دل کہاں جائے
سحر اداس کرئے، شام رائیگاں جائے
زمیں بدر جو ہوئے ہو تو میرے ہمسفرو
چلے چلو کہ جہاں تک یہ آسماں جائے
تمام شہر میں پھیلی ہوئی ہے تنہائی
یہ دل جواں سہی مگر کہاں کہاں جائے
جلوں تو یوں کہ ازل جگمگا اٹھے مجھ سے
بجھوں تو یوں کہ ابد تک دھواں جائے
ابھی تو دل سے نکل کر زبان تک آئی ہے
کسے خبر کہ کہاں کہاں تک یہ داستاں جائے
قدم قدم پہ ہے زنداں روش روش پہ صلیب
کوئی تو ہو کہ جو اب بہر امتحاں جائے
بچھڑ چلا ہے تو میری دعا بھی لیتا جا
وہاں وہاں مجھے پائے، جہاں جہاں جائے
میں اپنے گھر کی طرف جا رہا ہوں یوں محسن
کہ جیسے لٹ کے کسی بن میں کا رواں جائے !
No comments:
Post a Comment