سنبھلنے کے لیے گرنا پڑا ہے
ہمیں جینا بہت مہنگا پڑا ہے
رقم تھیں اپنے چہرے پر خراشیں
میں سمجھا آئینہ ٹوٹا پڑا ہے
مری آنکھوں میں تم کیوں جھانکتے ہو
تہوں میں آنسوؤں کی کیا پڑا ہے
حواس و ہوش ہیں بیدار لیکن
ضمیر انسان کا سویا پڑا ہے
اٹھا تھا زندگی پر ہاتھ میرا
گریبان پر خود اپنے جا پڑا ہے
محبت آنسوؤں کے گھاٹ لے چل
بہت دن سے یہ دل میلا پڑا ہے
زمیں ناراض ہے کچھ ہم سے شاید
پڑا ہے پاؤں جب الٹا پڑا ہے
ڈبو سکتی نہیں دریا کی لہریں
ابھی پانی میں اک تنکا پڑا ہے
مظفر رونقوں میلوں کا رسیا
ہجومِ درد میں تنہا پڑا ہے
No comments:
Post a Comment