آج شوق سا ہوا مجھے خود سے ملنے کا...
اپنی ذات کا حال احوال سننے کا...
اٹھ کے جا پہنچی دل کے پہلو میں...
ذرا تجسس سا تھا اسکی حالت دیکھنے کا ...
دل نے نظر اٹھا کے دیکھا میری جانب...
مجھے گُمان سا ہوا اسکی اداسی کا۔۔۔
میں نے پوچھ ہی لیا کیوں اداس ہو تم۔۔۔؟
بولا حوصلہ ہےمیری اذیت سُننے کا؟؟؟
میں نے تڑپ کے دیکھا اس کی جانب۔۔۔
محسوس کرنا چاہا درد اسکا۔۔۔
ہنس کے دھیرے سے دل نے کہا مجھ سے۔۔۔
بتاٶ ہنر ہے تم میں ضبط کرنے کا؟؟
میں نے ہولے سے جُھکایا سر اور حامی بھر لی،،
بڑی محویت سے سُننے لگی غم اسکا،،
بےساختہ آہ نکل گئی میری۔۔۔۔
میں نے جب قریب سے دیکھا زخم اسکا۔۔۔
خون رستا ہوا دیکھا میں نے اس سے ۔۔۔
درد اذیت میں بدلتا ہوا دیکھا اسکا۔۔۔
ایسے اور بہت سے گھاٶ دیکھے میں نے،،
مگر پوچھ نہ سکی ستم گر انکا
میں نے زخموں کی بابت پوچھا اس سے،،
اور سننے لگی جواب اسکا۔
چیخ چیخ کہ رونے لگا پھر دل،،
لگا بتانے مجھے سبب انکا
بولا کسی اپنے کی بےرُخی کا۔۔۔
کسی بہت اپنے کی بے مروتی کا۔۔۔
کسی ہمنوا کے بچھڑ جانے کا۔۔۔
کسی سے لامحدود توقعات رکھنے کا۔۔۔
بولتے بولتے نوچ ڈالے اس نے سارے زخم۔۔۔۔
ان آنکھوں سے دیکھا میں نے بِلکنا اسکا
دیکھ کے اذیت سلِب ہوٸی قوت گویاٸی۔۔۔
سوچا کیسے دوں حوصلہ اسے
کیسے کم کروں میں درد اسکا
بلکتا چھوڑ کے اسے کھڑی ہو گئ میں،،
مجھ سے برداشت نہ ہوا سِسکنا اسکا۔
بڑھائے میں نے جو قدم تو آواز دی اس نے،،
پلٹ کے دیکھا ہی نہیں میں نے حال اسکا
بڑی بے دردی سے تڑپتا چھوڑ آئی ھوں،،
میں نے سنا ہی نہیں نوحا اسکا۔۔
از قلم: ( حیا گُل )
اپنی ذات کا حال احوال سننے کا...
اٹھ کے جا پہنچی دل کے پہلو میں...
ذرا تجسس سا تھا اسکی حالت دیکھنے کا ...
دل نے نظر اٹھا کے دیکھا میری جانب...
مجھے گُمان سا ہوا اسکی اداسی کا۔۔۔
میں نے پوچھ ہی لیا کیوں اداس ہو تم۔۔۔؟
بولا حوصلہ ہےمیری اذیت سُننے کا؟؟؟
میں نے تڑپ کے دیکھا اس کی جانب۔۔۔
محسوس کرنا چاہا درد اسکا۔۔۔
ہنس کے دھیرے سے دل نے کہا مجھ سے۔۔۔
بتاٶ ہنر ہے تم میں ضبط کرنے کا؟؟
میں نے ہولے سے جُھکایا سر اور حامی بھر لی،،
بڑی محویت سے سُننے لگی غم اسکا،،
بےساختہ آہ نکل گئی میری۔۔۔۔
میں نے جب قریب سے دیکھا زخم اسکا۔۔۔
خون رستا ہوا دیکھا میں نے اس سے ۔۔۔
درد اذیت میں بدلتا ہوا دیکھا اسکا۔۔۔
ایسے اور بہت سے گھاٶ دیکھے میں نے،،
مگر پوچھ نہ سکی ستم گر انکا
میں نے زخموں کی بابت پوچھا اس سے،،
اور سننے لگی جواب اسکا۔
چیخ چیخ کہ رونے لگا پھر دل،،
لگا بتانے مجھے سبب انکا
بولا کسی اپنے کی بےرُخی کا۔۔۔
کسی بہت اپنے کی بے مروتی کا۔۔۔
کسی ہمنوا کے بچھڑ جانے کا۔۔۔
کسی سے لامحدود توقعات رکھنے کا۔۔۔
بولتے بولتے نوچ ڈالے اس نے سارے زخم۔۔۔۔
ان آنکھوں سے دیکھا میں نے بِلکنا اسکا
دیکھ کے اذیت سلِب ہوٸی قوت گویاٸی۔۔۔
سوچا کیسے دوں حوصلہ اسے
کیسے کم کروں میں درد اسکا
بلکتا چھوڑ کے اسے کھڑی ہو گئ میں،،
مجھ سے برداشت نہ ہوا سِسکنا اسکا۔
بڑھائے میں نے جو قدم تو آواز دی اس نے،،
پلٹ کے دیکھا ہی نہیں میں نے حال اسکا
بڑی بے دردی سے تڑپتا چھوڑ آئی ھوں،،
میں نے سنا ہی نہیں نوحا اسکا۔۔
از قلم: ( حیا گُل )
No comments:
Post a Comment