کوئی خوشبو بکھرتی ہے
زمیں اور آسماں کے درمیاں پھیلے مناظر میں
بہت آہستگی سے جب کوئی خوشبو بکھرتی ہے
تو آنکھوں میں ستاروں کا عجب میلہ سا لگتا ہے
ہوا سرگوشیاں پہنے دریچوں سے گذرتی ہیں
کوئی خوشبو بکھرتی ہے
درختوں سے جدا ہوتے ہوئے بے خانماں پتے
سفر آغاز کرتے ہیں
تو سپنوں پر حقیقت کا کوئی پرتو سا پڑتا ہے
صبا۔ قوسِ قزح کی راہ میں زینے بناتی ہے
اور اک بے نام سی آہٹ دبے پاؤں اُترتی ہے
کوئی خوشبو بکھرتی ہے
نیا موسم پرانے موسموں کی دھول سے
چہرہ اُٹھاتا ہے
تو شبنم کاسۂ گل میں کئی سکے گراتی ہے
زمیں پہلو بدلتی ہے
کوئی خوشبو بکھرتی
بہت آہستگی سے پھر تیری خوشبو بکھرتی ہے
امجد اسلام امجد
No comments:
Post a Comment