کسی خواب سے فروزاں کسی یاد میں سمٹ کر
کسی حُسن سے درخشاں کسی نام سے لپٹ کر
وہ جو منزلیں وفا کی مرے راستوں میں آئیں
وہ جو لذتیں طلب کی مرے شوق نے اُٹھائیں
اُنہیں اب میں جمع کر کے کبھی دھیان میں جو لاؤں
تو ہجومِ رنگ و بو میں کوئی راستہ نہ پاؤں
کہیں خوشبوؤں کی جھلمل کہیں خواہشوں کے ریلے
کہیں تتلیوں کے جمگھٹ کہیں جگنوؤں کے میلے
پہ یہ دلفریب منظر کہیں ٹھہرتا نہیں ہے
کوئی عکس بھی مسلسل سرِ آئینہ نہیں ہے
یہی چند ثانیے ہیں مری ہرخوشی کا حاصل
انہیں کس طرح سمیٹوں کہ سمے کا تیز دھارا
سرِ موجِ زندگانی ہے فنا کا استعارا
نہ کھُلے گرہ بھنور کی نہ ملے نشانِ ساحل
ترا کیا بنے گا اے دل! ترا کیا بنے گا اے دل
No comments:
Post a Comment