آنکھوں آنکھوں میں یہ ان سے رابطہ اچھا لگا
اس طرح سے گفتگو کا سلسلہ اچھا لگا
آنکھ میں آنسو لبوں پر سسکیاں اور دل میں غم
مجھ کو پھر اے دوست تیرا روٹھنا اچھا لگا
یہ بھی اچھا ہے نبھائی غیر سے اس نے وفا
بے وفائی میں بھی مجھ کو بے وفا اچھا لگا
دور تک مجھ کو ادا اسکی نشہ دیتی رہی
وقت رخصت اس کا مڑ کے دیکھنا اچھا لگا
اس نے ٹھکرایا تو سارے دوست بیگانے ہوئے
ہم کو اپنی موت کا پھر آسرا اچھا لگا
اپنے آنچل پر سجاتے وہ رہے رات بھر
میرے اشکوں کا رواں یہ سلسلہ اچھا لگا
مجھ کو ہر ٹکڑے میں ناصر وہ نظر آنے لگے
ٹوٹ کر مجھ کو جب ہی تو آئینہ اچھا لگا
ٹوٹ کر مجھ کو جب ہی تو آئینہ اچھا لگا
No comments:
Post a Comment