کیوں نہ ہم اُس کو اُسی کا آئینہ ہو کر ملیں
بے وفا ہے وہ تو اُس کو بے وفا ہو کر ملیں
تلخیوں میں ڈھل نہ جائیں وصل کی اُکتاہٹیں
تھک گئے ہو تو چلو پِھر سے جُدا ہو کر ملیں
پہلی پہلی قُربتوں کی پھر اُٹھائیں لذتیں
آشنا آ! پھر ذرا نا آ شنا ہو کر ملیں
ایک تُو ہے سر سے پا تک سراپا اِنکسار
لوگ وہ بھی ہیں جو بندوں سے خُدا ہو کر ملیں
معذرت بن کر بھی اُس کو مل ہی سکتے ہیں عدیمؔ
یہ ضروری تو نہیں اُس کو سزا ہو کر ملیں
عدیمؔ ہاشمی
No comments:
Post a Comment