ناصرؔ کیا کہتا پھرتا ہے ـــ کچھ نہ سُنو تو بہتر ہے
دِیوانہ ہے ـــ دِیوانے کے منہ نہ لگو تو بہتر ہے
*
کل جو تھا وہ آج نہیں ـ ـ جو آج ہے وہ کل مِٹ جائے گا
رُوکھی سُوکھی جو مِل جائے ـــ شکر کرو تو بہتر ہے
*
کل یہ تاب و تواں نہ رہے گی ـ ـ ٹھنڈا ہو جائے گا لہُو
نامِ خدا ہو جوان ابھی ـــ کچھ کر گزرو تو بہتر ہے
*
کیا جانے کیا رُت بدلے ـ ـ حالات کا کوئی ٹھیک نہیں
اب کے سفر میں ـــ تم بھی ہمارے ساتھ چلو تو بہتر ہے
*
کپڑے بدل کر ، بال بنا کر ، کہاں چلے ہو ، کس کے لیے
رات بہت کالی ہے ناصرؔ ـــ گھر میں رہو تو بہتر ہے
شاعر: ناصرؔ کاظمی
No comments:
Post a Comment