چلو ایک شام بھولوں تم
کسی پت جھڑ کے موسم میں
کسی ساحل کے پربت میں
کسی گمنام آنچل میں
کسی بہتے کنارے میں
چلو ایک شام بھولوں تم
چلو ایک شام بھولوں میں
یہ گیسوں یہ تمھارے لب
یہ آنکھوں میں بھرے سپنے
چلو ایک شام بھولوں تم
چلو ایک شام بھولوں میں
تمھارے
دل میں پلتی جو
سلگتے
ہیں کئ سپنے
متاثر ھو کے کہتا ھوں
چلو ایک شام بھولوں تم
چلو ایک شام بھولوں میں
یہ
وعدوں میں کوئ وعدہ
ہمیں
برباد کر دے گا
یہی
سے پھر نکلتے ہیں
کسی رستے کسی محفل
جہاں سے مل نہیں سکتا
وہی پہ ختم ہے منزل
چلو ایک شام بھولوں تم
چلو ایک شام بھولوں میں
No comments:
Post a Comment