دھیان میں تو گلاب کی مانند
کسی پیمبر کی کتاب کی مانند
گر ضروری تھا ہجر عشق میں
وصل بھی ہوتا شباب کی مانند
بہہ گیے میرے آنسوں میں خواب
خواب ہیں میرے سیلاب کی مانند
اتنی عجلت میں گزر گئی زندگی
مہ و سال ہوے سراب کی مانند
وقت خود ہی کر رہا آبیاری انکی
شعر کھل رہے گلاب کی مانند
سرمایہ کل ہے یہ ہی گھر میرا
رہتا ہوں خانہ خراب کی مانند
No comments:
Post a Comment