شام تھی ساعتِ زوال میں گُم
زخم تھا اپنے اندمال میں گُم
حدِ ادارک میں تھا جو بھی کچھ
سب تھا بس ایک ہی سوال میں گُم
تیز آندھی میں کیا چراغ کی لو؟
برف میں کیسی آبلہ پائی؟
کارنس پر تھے پھول سوکھے ہوئے
سیڑھیوں میں بچھی تھی تنہائی
خواب تھے کھڑکیوں میں آویزاں
زینتِ طاق تھی شکیبائی
ایک نا طاقتی تھی چاروں طرف
راستہ راستہ تھی پسپائی
کہکشاؤں کے درمیاں لرزاں
ایک نا مختتم سی پہنائی
فاصلے تھے فریب آنکھوں کا
ناپتا کون غم کی گہرائی
اک گریزاں سے عکس کی خاطر
آئنے ہو رہے تھے سودائی
یوں ستارے تھے منتظر، جیسے
درِ محبوب پر تمنائی
وقت تھا روز و شب کی چال میں گُم
میں تھا اپنے کسی خیال میں گُم
No comments:
Post a Comment