مجھے کب سرخرو ہونا ہے کب معتوب ہونا ہے
خبر رکھتا ہوں، کب، کس نام پر مصلوب ہونا ہے
یہ دعویٰ تو نہیں احوال کل کا جانتا ہوں میں
مگر جو حادثہ ہونا ہے اب کے خوب ہونا ہے
بہت دن تک نہیں رہنا اڑانوں کا ہرا موسم
ہمیں تھک ہار کر مٹی سے ہی منسوب ہونا ہے
لکیریں کھینچنے دو شوق سے اوراقِ ماضی پر
انہی بچوں کو کل کا صاحبِ اسلوب ہونا ہے
مری آنکھوں کو رہنا ہے بدلتے موسموں جیسا
کسی پل خشک رہنا ہے کبھی مرطوب ہونا ہے
No comments:
Post a Comment