بے نام ہستیوں کے نام!!
اسے کہنا کہ---!!
اسے کہنا کہ اب تو دسمبر آگیا ہے!
مگر
آبِ رواں ابھی تک سلگتا ہے
تودۂ خاکِ بدن سسکتا ہے
میرا دل پل پل بلکتا ہے!
ہاں دیکھ کہ اس سال میں
کتنے قتل سرِ عام ہوئے
کتنی عصمتیں لوٹیں
کتنے آنگن ویران ہوئے؟
شام،کشمیر،فلسطین،و عراق و افغان
سب کے کیا کیا امتحان ہوئے؟
ہاں دیکھ کہ اس سال میں
کتنا علم اٹھایا گیا
کتنا مسلم آزمایا گیا
دار کی ہر ٹہنی پر
ہمارے جگر کے ٹکڑوں کو لٹکایا گیا!
قضاوقدر کا ہر طمانچہ
ہمارے چہروں پر مروایا گیا
ہر چوک و چوراہے میں
ہماری غیرت کا خون بہایا گیا!
اسی واسطے کہ کوئ
سویا ضمیر جاگے
محبتوں کا سفیر جاگے
امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا خمیر جاگے
کوئ تو حاکم و امیر جاگے!
آہ !
رَزم گاہِ حق و باطل سجانے کو اب تو مردِ شمشیر جاگے
ہاں کوئی فرزندِ توحید جاگے
اور پھر صدائے ناہید جاگے!
اسے کہنا کہ
یہ خوابِ خرگوش کے مزے
تمہارا ضمیر سلادیں گے
تمہیں زندہ جلادیں گے
تمہاری داستاں تک مٹادیں گے
ہاں! تمہیں قبر میں رُلا دیں گے!
سن نامہ بر !
اگر نہ حق وہ جان پائے
نہ خِرد کا جہان پائے
نہیں میری بات مان پائے!
تو میرے گہنے اور یہ مصلّہ
اس تک پہنچا دینا
اور اس کے بدلے میں
اس کا سامان ِ حرب لا دینا !
اور فقط یہ پیغام سنا دینا
ہم ِسفرِ مقتل میں ہیں اے ہم نشیں !
مگر دعا ہے کہ
اپنی زندگیوں میں شاد رہو تم
اپنی بستیوں میں آباد رہو تم
اب میرے شکووں سے آزاد رہو تم!
ہاں اسے کہنا کہ
اب تو دسمبر آگیا ہے!!
جب کبھی یادوں کے ساون میں
بے سبب ہی میرے نام کا مینہ برس پڑے
تو ان اشکوں کو مہیا یہ ثبوت کردینا
میری نذر بھی
اپنی زیست کا اک سکوت کردینا
ہاں رات کے آخری پہر
مرے ہی مصلّےپر
اک قنوت کر دینا
ہاں دسمبر کی راتوں میں
اسے کہنا کہ۔۔۔۔!
بس اک قنوت کردینا
بس اک قنوت کر دینا!!!
بنت ِ اسلام
No comments:
Post a Comment