میں
رات کی تاریکیوں میں چلنے والا مسافر
روشنی
سے گھبرا گیا
میں
سمندر جیسا بہتا ہوا پانی
قطرہ
دیکھ کر گھبرا گیا
نہ
دیجئے داد میرے حُسن کو
میں
تو آئینہ دیکھ کر گھبرا گیا
اپنی
اوقات میں کیا آ گئے تھے ہم
زمانہ
مجھ کو دیکھ کر گھبرا گیا
یہاں
تو دلوں کے طلب گار بدل جاتے ہیں
میں
تو دل دے کر گھبرا گیا
لوگ
آتے رہے جنازے جاتے رہے
میں
فقط سفید کپڑا دیکھ کر گھبرا گیا
یا
الٰہی اتنا بتا دے میں تیری بندگی کا آغاز کہاں سے کروں
میں
سجدے میں گرنے سے گھبرا گیا
اور
ڈر لگتا ہے مجھے اس ہجوم بھری دنیا سے
میں
تو تنہا رہ کے بھی گھبرا گیا
Fabulous
ReplyDeleteAmazing ....Your Poetry is Deep
ReplyDeleteYour choice of words are beautiful ������
Ahhh nycc... ❤️❤️❤️
ReplyDelete