میں
نے لفظوں کو اشکوں کی صورت
آنکھوں
سے بہتے دیکھا ھے
اور
جذبوں کو بے مول ھوتے
سر
محفل کئی بار دیکھا ھے
کچلا
ھے کئی بار انا کو اپنی
وعدوں
کو کئی بار ٹوٹتے دیکھا ھے
ہنستے
،بستے خوش گفتار لوگوں کو
کئی
بار اپنے آپ سے لڑتے دیکھا ھے
جو
کسی کی چاہ میں مر مٹنے کے دعویدار تھے
ان
لوگوں کو اجنبی ،بے پروا ھوتے دیکھا ھے
کسی
کی خاطر کوئی جینا چھوڑ نہیں دیتا
کسی
کے جذبوں کی موت پہ،کسی کو زندہ ھوتے دیکھا ھے
یہ
دنیا سراب،بس خام خیالی ھے فلک
کئی
دیوانوں کو اس پر مٹتے ھوئے دیکھا ھے
از:فلک
میر
****
**مسافت گرچہ لمبی ھے
مگر
لاحاصل تو نہیں نا!
آنکھیں
گر اشکبار ہیں
بے
رونق تو نہیں نا!
اداسی
سی چھائی ھے
یہ
مستقل تو نہیں نا!
ھم
مسافر ضرور ہیں
بے
منزل تو نہیں نا!
وقت
بدلنے والا ھے
ھم
مایوس تو نہیں نا!
اللّہ
کی رحمت ساتھ ھے
ھم
بے آسرا تو نہیں نا!
از:
فلک میر
****
تم
ہی بتا دو
کہ
پتھر دل کیسے
موم
ھوتے ہیں؟
کسی
کے جی کہ مرنے پر
کسی
کے مر کر جینے پر
تم
ہی بتا دو
کہ
عکس کیسے مٹتے ہیں
نظر
کا نور جانے پر
یا
آنکھیں چلے جانے پر
مجھے
تم سے ہی
ھر
سوال پوچھنا ھے
دلوں
پہ لکھے ناموں کو
مٹایا
کیسے جاتا ھے
وہ
مٹ بھی جاتے ہیں؟
یا
خود
کو مٹانا پڑتا ھے
کسی
کو مارنا ھو اگر
تو
کیا فقط
انتظار
سے ہی مارا جاتا ھے
یا
سولی پر لٹکا کہ پھر
زمانہ
پتھر مارتا ھے
کسی
کی ہنستی بستی
اور
خوش رنگ زندگی کو
اگر
زنگ لگانا ھو؟
تو
کیا عمر بھر کا روگ
اسے
لگایا جاتا ھے؟
جن
کے نام کے حروف بھی
عقیدت
سے تکتے تھے فلک
ان
پر کیسے کج روائی کا
الزام لگایا جاتا ھے
No comments:
Post a Comment