شکوہ نہ شکایت ھے تم سے
بس یہ ہی گیلا ھے خود سے
کیوں پیار کیا تم سے
*****
اس زندگی میں کانٹوں کےسوا کچھ بھی نہیں
اور تم پھولوں کی بات کرتے ھو
کہتے ھو خوش رہا کرو
پر کیا کرے صاحب
ہمارے نصیب میں تو خوشیاں ہی نہیں
******
اب ڈرتا ھےدل کسی کو اپنا کہنے سے
کیوں کے دھوکا ہی میلا ھے ہر اک سے
*******
اتنا مان نہ کر اے انسان
تو تو اک مٹی کا کھلونا ھے
اک نہ اک دن تجھے ٹوٹ ہی جانا ھے
پھر غرور کس بات کاچھوٹا ھو یہ بڑا
سب نے اسی جگہ پر ہی تو جانا ھے
نام غلام فاطمہ منیر
*****
یہاں تو سب بےوفا لوگ ہیں وفا کیا کرے گے
چل اپنے شہر اے دل یہاں ٹھر کراب کیا کرے گے
نام غلام فاطمہ منیر
*****
وہ دل میں بسا ایسا کے دھرکن بن گیا
اب اس کے بن جینا جسے سزا بن گیا
نام غلام فاطمہ منیر
******
تیری یادوں کے سہارے جی رہے ہیں
زہر یہ جدای کا پی رہےہیں
اک بار لوٹ کر توآجا
یہ ہی بار بار کہہ رہےہیں
نام غلام فاطمہ منیر
*****
دل میں غم ھے اتناتو مسکراے کسیے
تم سے پیار کیا تھا اتنا کے بھولے کسیے
نام غلام فاطمہ منیر
******
اس دل میں رہتے ہو دھرکن کی طرح
ان آنکھوں میں بستے ہو خوابوں کی طرح
اب اور کیا کہو
میری زندگی میں ہو سانسوں کی طرح
نام غلام فاطمہ منیر
*****
پیار ھونا تھا ہو گیا
دل ٹوٹنا تھاٹوٹ گیا
اب افسوس کر کیا
جو ہونا تھا وہ تو ہو گیا
نام غلام فاطمہ منیر
****
غزل
رات کی تنہای پھر ھے آی
دل نے بھی دی ھےدُہای
کیوں تمہاری یاد ھے آی
تم تو چلے گے تھے چھوڑ کر
یہ ہی سوچ کر آنکھ میری ھے بھر آی
رات کی تنہای پھر ھےآی
دل نے بھی دی ھےدُہای
کسی سے تم پیار نہ کرنا
کسی پر کبھی تم اعتبار نہ کرنا
بس وقت نے یہ ہی بات ھے سیکھای
رات کی تنہای پھر ھے آی
رات کی تنہای پھر ھے آی
نام غلام فاطمہ مینر
*****
جس کے لیے ہم نے سب کو چھوڑ دیا
آج اُس نے ہی میرا دل تور دیا
نام غلام فاطمہ منیر
******
انکھوں میں آنسو آجاتے ھے
پھر بھی لبوں پر ہسی رکھنی پرتی ھے
یہ محبت بھی کیاچیز ھے یارو
جس سے کرتے ھے اُسی سے چھوپنی پرتی ھے
نام غلام فاطمہ منیر
*****
رات کی تنہای میں جب اکیلے ھوتے ھے
خدا کی قسم دل کھول کر روتے ھے
یوں درد اپنا ہم چھپاتے ھے
رات کو روتے اور دن کو مسکراتے ھے
دیکھنے والے کہتے ھے واہ کتنے خوش نظر آتے ھے
*******
ہرمحبت کے نصیب میں منزل نہیں ہوتی اس لئے محبت کو پا لینے کی لگن کے ساتھ کھو دینے کا ظرف بھی ہونا چاہئیے
کیونکہ
کبھی کبھی محبت آپ کو ایسے درد سے نواز دیتی ہے کہ اگر آپ کی آنکھوں کے سامنے آپ کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے بھی کر دیے جائیں
تو بھی آپ درد کی وہ شدت محسوس نہیں کر سکتے جو آپ کے چاھنے والوں کے لہجہ بدلنے سے آپ کو ہوتی ہے
کبھی کبھی انسان اپنے وجود سے ہی تنگ آجائے تو اُسے اپنا وجود ہی کائنات پر بوجھ محسوس ہونے لگتا ہے
ایسے میں کوئی خوشی کوئی دکھ متاثر نہیں کرتا آنکھیں خشک سیلاب بن کر ویران ہو جاتی ہیں
سوچ کے دریچوں پر جیسے قفل پڑ جاتے ہیں دل کِسی پرانے کھنڈر کی طرح ہو جاتا ہے
دل جیسے گلدان میں لگے بناوٹی پھولوں جیسا بن جاتا ہے جو صرف کمرے کی زیبائش کے لیے سجائے جاتے ہیں💔
******
No comments:
Post a Comment