عجب
اک حسرت جاگی ہے دل میں
کہ
کاش تو میرا ہمسایہ ہوتا
روز
تیرا دیدار نصیب ہوتا
دن
میں اک بار ہی صحیح
میں
تجھے آتے جاتے دیکھتی
تیری
آواز کا سر بکھیڑنا در حقیقت سن سکتی
دھوپ
میں چھت پر بیٹھے سورج کی کرنوں کو تیرے چہرے پر بکھڑنے کا منظر
تیری
دودھیاں رنگت کا سرخی میں بدلنا دیکھتی
اور
پھر ان سورج کی کرنوں سے پریشاں ہو کر تیرا اپنی آنکھوں کو پٹپٹانا
مزید
جھنجھلاہٹ میں اپنے بالوں کو پیشانی سے ہٹانا دیکھتی
تیرے
تل سے مزین چہرے کو ہاں میں دن میں کہی بار دیکھتی
میں
دیکھتی تیرا ہر وہ انداز جو دیکھنے کی خواہاں ہوں
کاش
کاش
No comments:
Post a Comment