آئينہ دھوپ کا دريا ميں دکھاتا ہے مجھے
ميرا دشمن مرے لہجے ميں بلاتا ہے مجھے
سر پہ سورج کي سواري مجھے منظور نہيں
اپنا قد دھوپ ميں چھوٹا نظر آتا ہے مجھے
آنسوؤں سے مري تحرير نہيں مٹ سکتي
کوئي کاغذ ہوں کہ پاني سے ڈراتا ہے مجھے
دودھ پيتے ہوئے بچے کي طرح ہے دل بھي
دن ميں سو جاتا ہے راتوں کو جگاتا ہے مجھے
ايسا لگتا ہے کہ اس نے مجھے غالب جانا
نہ اٹھاتا ہے مجھے اور نہ بٹھاتا ہے مجھے
No comments:
Post a Comment