affiliate marketing Famous Urdu Poetry: March 2016

Thursday, 31 March 2016

میں اسکی قید سے آزاد کہاں ہوں محسن

میں اسکی قید سے آزاد کہاں ہوں محسن
بنا کے رکھتا ہے سوچوں میں یرغمال مجھے

ہنسی کو اپنی سُن کے ایک بار میں بھی چونک اُٹھی

 
ہنسی کو اپنی سُن کے ایک بار میں بھی چونک اُٹھی
 !......یہ مجھ میں دُکھ چھُپانے کا کمال کیسے آگیا.
 پروین شاکر

وہ کہتی ہے سنو جاناں محبت موم کا گھر ہے

وہ کہتی ہے سنو جاناں محبت موم کا گھر ہے
تپش اک بد گمانی کی کہیں پگھلا نہ دے اس کو
میں کہتا ہوں کہ جس دل میں ذرا بھی بدگمانی ہو
وہاں کچھ اور ہو تو ہو محبت ہو نہیں سکتی
وہ کہتی ہے سدا ایسے ہی کیا تم مجھ کو چاہو گے
کہ میں اس میں کمی بالکل گوارا کر نہیں سکتی
میں کہتا ہوں محبت کیا ہے یہ تم نے سکھایا ے
مجھے تم سے محبت کے سوا کچھ بھی نہیں آتا
وہ کہتی ہے جدائی سے بہت ڈرتا ہے میرا دل
کہ خود کو تم سے ہٹ کر دیکھنا ممکن نہیں ہے اب
میں کہتا ہوں کہ یہی خدشے بہت مجھ کو ستاتے ہیں
مگر سچ ہے محبت میں جدائی ساتھ چلتی ہے
وہ کہتی ہے بتاؤ کیا میرے بن جی سکوو گے تم
میری یادیں، میری آنکھیں، میری باتیں بھلا دو گے
میں کہتا ہوں کبھی اس بات پر سوچا نہیں میں نے
اگر اک پل کو بھی سوچوں تو سانسیں رکنے لگتی ہیں
وہ کہتی ہےتمہیں مجھ سے محبت اس قدر کیوں ہے
کہ میں اک عام سی لڑکی ہوں تمہیں کیوں خاص لگتی ہوں
میں کہتا ہوں کبھی خود کو میری آنکھوں سے تم دیکھو
میری دیوانگی کیوں ہے یہ خود ہی جان جاؤ گی
وہ کہتی ہے مجھے وارفتگی سے دیکھتے کیوں ہو
کہ میں خود کو بہت ہیی قیمتی محسوس کرتی ہوں
میں کہتا ہوں متاع جاں بہت انمول ہوتی ہے
تمہیں جب دیکھتا ہوں زندگی محسوس ہوتی ہے
وہ کہتی ہے بتاؤ نا کسے کھونے سے ڈرتے ہو
بتاؤ کون ہے وہ جسکو یہ موسم بلاتے ہیں
میں کہتا ہوں یہ میری شاعری ہے آئینہ دل کا
ذرا دیکھو بتاؤ کیا تمہیں اس میں نظر آیا
وہ کہتی ہے کہ آتش جی بہت باتیں بناتے ہو
مگر سچ ہے کہ یہ باتیں بہت ہی شاد رکھتی ہیں
میں کہتا ہوں یہ سب باتیں، فسانے اک بہانہ ہیں
کہ پل کچھ زندگانی کے تمہارے ساتھ کٹ جائیں
پھر اس کے بعد خاموشی کا اک دلکش رقص ہوتا ہے
نگاہیں بولتی ہیں اور یہ لب خاموش رہتے ہیں....

عاطف سعید

تمام عمر اسی کے رہے یہ کیا کم ہے



تمام عمر اسی کے رہے یہ کیا کم ہے
بلا سے عشق حقیقی نہ تھا مجازی تھا

نہ دوست یار، نہ ناصح، نہ نامہ بر، نہ رقیب
بلا کشان ِمحبّت سے کون راضی تھا


یہ گل شدہ سی جو شمعیں دکھائی دیتی ہیں
ہنر ان آنکھوں کا آگے ستارہ سازی تھا


احمد فراز

یہی نہیں کہ زخمِ جاں کو چارہ جُو ملا نہیں



یہی نہیں کہ زخمِ جاں کو چارہ جُو ملا نہیں
یہ حال ہے کہ دل کو اسمِ آرزو ملا نہیں
ابھی تلک جو خواب تھے۔۔۔ چراغ تھے گلاب تھے
وہ رہگزر کوئی نہ تھی کہ جس پہ تو ملا نہیں۔۔۔

ادا جعفری
------------------------

Yehi Nahi k zakhm-e-jaan ko chaar jo mila nahi
Yeh haal tha k dil ko Ism-e-Arzu Mila nahi

abhi talak jo khawab thay charagh tahy ghulab thay
Wo rehguzar koi na thee k jis p tu Mila nahi

Ada-Jafri

اس کی رفتار سے لپٹی رہیں آنکھیں میری


اس کی رفتار سے لپٹی رہیں آنکھیں میری
اس نے مڑ کر بھی نہ دیکھا کہ وفا کس کی تھی

مظفر وارثی

ہر ایک چہرے پہ دل کو گمان اس کا تھا

ہر ایک چہرے پہ دل کو گمان اس کا تھا
بسا نہ کوئی یہ خالی مکان اس کا تھا


میں بے جہت ہی رہا اور بے مقام سا وہ
ستارہ میرا سمندر نشان اس کا تھا


سلیقہ عشق میں جاں اپنی پیش کرنے کا
جنہیں بھی آیا تھا ان کو ہی دھیان اُس کا تھا

تاجدار عادل

دل ہی تھے ہم دکھے ہوئے تم نے دکھا لیا تو کیا

دل ہی تھے ہم دکھے ہوئے تم نے دکھا لیا تو کیا
تم بھی تو بے اماں ہوئے۔۔۔ ہم کو ستا لیا تو کیا


باغ کا باغ آپ کی دسترسِ ہوس میں ھے
ایک غریب نے اگر پھول اٹھا لیا تو کیا


پڑھتا نہیں ھے اب کوئی سنتا نہیں ھے اب کوئی
حرف جگا لیا تو کیا شعر سنا لیا تو کیا

عبید الله علیم

بے وفا تھا تو نہیں وہ، مگر ایسا بھی ہوا

بے وفا تھا تو نہیں وہ، مگر ایسا بھی ہوا
وہ جو اپنا تھا بہت، اور کسی کا بھی ہوا

تیری خوشبو بھی ترے زخم میں ملفوف ملی
تجھ سے گھائل بھی ہوا اور میں اچھا بھی ہوا

راہ دے دی ترے بادل کو گزرنے کے لئے
ورنہ یہ دل تو تری پیاس میں صحرا بھی ہوا
کاشف رضا

دل کی خلش تو ساتھ رہے گی تمام عُمر

دل کی خلش تو ساتھ رہے گی تمام عُمر
دریائے غم کے پار اتر جائیں ہم تو کیا

منیرؔ نیازی

Tuesday, 29 March 2016

تُو نے کہا تھا عشق ڈھونگ ہے

تُو نے کہا تھا عشق ڈھونگ ہے
 
تجھے عشق ہو خدا کرے
 
کوئی تجھ کو اُس سے جُدا کرے
 
تيرے ہونٹ ہنسنا بھول جائيں
 
تيری آنکھ پُرنم رہا کرے
 
تُو اسکی باتيں کيا کرے
 
تُو اُسکی باتيں سُنا کرے
 
اُسے ديکھ کر تُو رُک پڑے
 
وہ نظر جھکا کر چلا کرے
 
تُجھے ہجر کی وہ جھڑی لگے
 
تُو ملنے کی ہر پل دُعا کرے
 
تيرے خواب بکھريں ٹُوٹ کر
 
تُو کِرچی کِرچی چُنا کرے
 
تُو نگر نگر پھرا کرے
 
تُو گلی گلی صدا کرے
 
تُجھے عشق ہو پھر يقين ہو
 
اُسے تسبيعوں ميں پڑھا کرے

موج خوشــــبو کی طرح،، بات اُڑانے والے

موج خوشــــبو کی طرح،، بات اُڑانے والے
تُجھ میں پہلے تو نہ تھے رنگ زمانے والے
،
کتنے ہیرے میری آنکھون سے چُرائے تو نے
چَند پتھر،،،، میری جھولی میں گِرانے والے
،
خوں بہا اگلی بہاروں کا تیرے سر تو نہیں
خُشک ٹہنی پہ،،،،،،، نیا پُھول کِھلانے والے
،
آ تجھے نظر کروں اَپنی ہی شہہ رگ کا لہو
میرے دُشــــمں ،،،، میری توقیر بڑھانے والے
،
آستینوں میں چھپائے ہوئے،،،، خنجر آئے
مجھ سے یاروں کی طرح ہاتھ مِلانے والے
،
ظلمتِ شب سے شکایت اُنہیں کیسی محسنؔ
وہ تو سُورج کو تھے،،۔۔۔، آئینہ دکھانے والے

مرے ہمدم، مرے ساتھی

  •  

    مرے ہمدم، مرے ساتھی

    تمہیں تو یاد ہی ہو گا
    وہ دن کیا خاص تھا جب تم مرے جیون میں آئی تھیں
    مری بے رنگ دنیا کو
    تمہاری مسکراہٹ نے ہزاروں رنگ بخشے تھے
    اسے کیسے سجایا تھا 
    تمہیں تو یاد ہی ہو گا
    تمہیں میں نے بتایا تھا
    کہ میں خوابوں میں رہتا ہوں مگر تم اک حقیقت ہو
    محبت ہی محبت ہو
    پھر اس کے بعد جیون کے سبھی موسم، سبھی منظر تمہاری آنکھ سے دیکھے
    تمہارے ساتھ جو گذرے، وہی پل زندگی ٹھہرے
    تمہیں تو یاد ہی ہو گا، مجھے کب یاد رہتا تھا
    مجھے کیا کام کرنے ہیں
    مجھے کس کس سے ملنا ہے
    کہاں جانا ضروری ہے
    خفا کوئی ہے کیوں مجھ سے
    کسے جا کر منانا ہے
    مجھے کب یاد رہتا تھا
    مرا معمول تو تم تھیں
    تمہی سب یاد رکھتی تھیں
    میں اپنے دل کی سب باتیں فقط تم سے ہی کرتا تھا
    تمہاری بھی یہ عادت تھی
    تمہیں تو یاد ہی ہو گا، میں اکثر تم سے کہتا تھا
    ابھی اس زندگی کے ساتھ کتنے روگ لپٹے ہیں
    مجھے تم سے محبت کی ذرا فرصت نہیں ملتی
    ذرا وہ وقت آنے دو، ذرا فرصت ملے مجھ کو
    بٹھا کر سامنے تم کو، تمہیں جی بھر کے دیکھوں گا
    بتاؤں گا مجھے تم سے محبت سی محبت ہے
    مجھے اس دم ملی فرصت
    کہ جب یہ بات سننے کو نہیں تم سامنے میرے
    مری جاں تم وہاں پر ہو، 
    جہاں سے لوٹ کر واپس کبھی کوئی نہیں آتا
    تمہیں کیوں اتنی جلدی تھی؟
    مرا اقرار سن لیتیں، مرا اظہار سن لیتیں
    کہ اب فرصت ہی فرصت ہے
    کہ اب معمول میں میرے، فقط تم سے محبت ہے
    مگر یہ بھی حقیقت ہے
    کہ میں تاخیر سے پہنچا،
    تمہیں جانے کی جلدی تھی.

  • عاطفؔ سعید

یہ جو ریگِ دشتِ فراق ہے

 

یہ جو ریگِ دشتِ فراق ہے 

یہ رکے اگر

یہ رکے اگر، تو نشاں ملے
کہ جو فاصلوں کی صلیب ہے
یہ گڑی ہوئی ہے کہاں کہاں؟
مرے آسماں سے کدھر گئی ؟ ترے التفات کی کہکشاں
مرے بے خبر، مرے بے نشاں
یہ رکے اگر تو پتا چلے
میں تھا کس نگر تو رہا کہاں
کہ زماں و مکاں کی وسعتیں
تجھے دیکھنے کو ترس گئیں
وہ میرے نصیب کی بارشیں
کسی اور چھت پر برس گئیں
مرے چار سوہے غبار جاں ، وہ فشار جاں
کہ خبر نہیں مرے ہاتھ کو مرے ہاتھ کی
مرے خواب سے تیرے بام تک
تری رہگزر کا تو ذکر کیا
نہیں ضوفشاں تیرا نام تک !۔
ہیں دھواں دھواں مرے استخواں
مرے آنسوؤں میں بجھے ہوئے ، مرے استخواں
مرے نقش گر مرےنقش جاں
اسی ریگ دشت فراق میں ، رہے منتظر ، ترے منتظر
مرے خواب جن کے فشار میں
رہی مرے حال سے بے خبر
تری رہگزر
تری رہگزر کہ جو نقش ہے مرے ہاتھ پر
مگر اس بلا کی ہے تیرگی
کہ خبر نہیں مرے ہاتھ کومرے ہاتھ کی
وہ جو چشم شعبدہ ساز تھی وہ اٹھے اگر
میرے استخواں میں ہو روشنی
اسی ایک لمحہ دید میں تری رہگزر
میری تیرہ جاں سے چمک اٹھے
مرے خواب سے ترے بام تک
سبھی منظروں میں دمک اٹھے
اسی ایک پل میں ہو جاوداں
مری آرزو کہ ہے بے کراں
مری زندگی کہ ہے مختصر
جو ریگ دشت فراق ہے یہ ، رکے اگر
یہ رکے اگر۔۔۔

امجد اسلام امجد

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے۔

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے۔


کہ جس کو ہمسفر جانیں۔۔
 
جسے پانے کی خواہش میں۔۔
 
ہزاروں درد انجانے

،یونہی ہم گود لیتے ہیں۔۔
 
زمانے کے گلے شکوے

کبھی اغیار کی باتیں
،
کئی جاگی ہوئی راتیں
،
ہمیں تحفے میں ملتی ہیں۔۔

تمنّا جس کو پانے کی
،
زباں پر وِرد کی صورت
،
ہمیشہ جاری رہتی ہے۔۔

وہ جس کا نام سن کردل دھڑکنا بھول جاتا ہے

۔۔ہم اُس خوش بخت کی خاطر
،
جاں پر کھیل جاتے ہیں۔۔

سبھی دکھ جھیل جاتے ہیں

۔۔مگر۔۔ایسا بھی ہوتا ہے۔۔
!
کہ جس کو ہمسفر جانیں

ہمارے دل کی باتوں سے

۔۔وہی لاعلم رہتا ہے۔۔!

سُنو جاناں

سُنو جاناں
محبت رُت میں لازم ھے
بہت عُجلت میں یا تاخیر سے وہ مرحلہ آئے
کوئی بے درد ھو جائے
محبت کی تمازت سے بہت بھرپُور سا لہجہ
اچانک سرد ھو جائے
گُلابی رُت کی چنچل اوڑھنی بھی زرد ھو جائے
تو ایسے موڑ پر ڈرنا نہیں، رُکنا نہیں، گھبرا نہیں جانا
غضب ڈھاتی ھوئی سفّاک موجوں سے
کسی بھی سُرخ طوفاں سے
بہت نازک سی، بے پتوار دل کی ناؤ کو اُس پل
ھمیں دوچار کرنا ھے
ھمارا عہد ھے خود سے
کسی قیمت پہ بھی ھم کو
سمندر پار کرنا ھے

ﻟﻮﮒ ﺑﮭﯽ ﻋﺠﺐ ﮨﯿﮟ



ﻟﻮﮒ ﺑﮭﯽ ﻋﺠﺐ ﮨﯿﮟ


ﺍﮔﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺷﯿﺪﺍ ﺋﯽ
 
ﺭﺍﺕ ﺩﻥ ﻣﺤﺒﺖ ﺳﮯ

 
ﺍﻥ ﮐﻮ ﻭﻗﺖ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﻮ

 
ﮨﻨﺴﺘﺎ ﮨﻮ, ﮨﻨﺴﺎﺗﺎ ﮨﻮ

 
ﺭﻭﭨﮭﺘﺎ ﺑﮭﯽ ﺧﻮﺩ ﮨﯽ ﮨﻮ

 
ﭘﮭﺮ ﺧﻮﺩ ﮨﯽ ﻣﻨﺎﺗﺎ ﮨﻮ

 
ﭘﻮﺭﮮ ﺩﻥ ﮐﯽ ﭘﻞ ﭘﻞ ﮐﯽ

 
ﺩﺍﺳﺘﺎ ﮞ ﺳﻨﺎﺗﺎ ﮨﻮ

 
ﮨﺮ ﻭﻗﺖ ﺩﻋﺎﺅﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﻮ ﯾﺎﺩ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﻮ

 
ﺳﺎﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﻮ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﻮ

 
ﮨﺮ ﻗﺪﻡ ﭘﮧ ﺭﮨﺒﺮ ﮨﻮ

 
ﮨﺮ ﺧﯿﺎﻝ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﻮ

 
ﺳﺎﺋﺒﺎﻥ ﺑﻦ ﮐﺮ ﻭﮦ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺳﻨﺒﮭﺎﻝ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﻮ

 
ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺪﻟﮯ ﻣﯿﮟ

 
ﺍﺱ ﮐﻮ ﮐﭽﮫ ﻧﮧ ﻣﻞ ﭘﺎﺋﮯ

 
ﺍﯾﮏ ﺑﻮﻝ ﭼﺎﮨﺖ ﮐﺎ

 
ﮐﭽﮫ ﻭﻗﺖ ﺗﻮﺟﮧ ﮐﺎ

 
ﺑﮯ ﺗﻮ ﺟﮩﯽ ﭘﺎﺋﮯ ﻭﮦ ﺧﻠﻮﺹ ﮐﮯ ﺑﺪﻟﮯ

 
ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﻭﮦ ﺭﻭﺍﻧﯽ ﺳﮯ

 
ﺧﻠﻮﺹ ﺑﺎﻧﭩﺘﺎ ﺟﺎﺋﮯ

 
ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺳﮯ

 
ﺍﺱ ﺳﮯ ﺟﺎﮞ ﭼﮭﮍ ﺍﻧﮯ ﮐﻮ

 
ﺍﺱ ﺳﮯ ﯾﮧ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺋﮯ

  
ﺗﻢ ﺳﮯ ﺍﺱ ﺗﻌﻠﻖ ﭘﺮ
 ﻣﯿﺮﮮ ﺟﺎﻧﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ
 
ﻣﯿﺮﮮ ﭼﺎﮨﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ

 
ﺍﻧﮕﻠﯿﺎﮞ ﺍ ﭨﮭﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ

 
ﺁﭖ ﯾﻘﯿﻦ ﮐﯿﺠﺌﮯ

 
ﺑﮩﺖ ﺩﺭﺩ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ

 
ﺗﺐ ﯾﻘﯿﻦ ﮐﺎ ﺩﺭﯾﺎ

 
ﺟﮭﭧ ﺳﮯ ﺳﻮﮐﮫ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ

 
ﭼﺎﮨﺘﻮﮞ ﮐﺎ ﺳﺎﯾﮧ ﭘﮭﺮ

 
ﺩﮬﻮﭖ ﺑﻦ ﮐﮯ ﭼﺒﮭﺘﺎ ﮨﮯ

 
ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﺩﮬﯿﺮﮮ ﺩﮬﯿﺮﮮ

 
ﺍﻥ ﻣﺼﺮﻭﻑ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﯽ

 
ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺳﮯ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ

 
ﮐﭽﮫ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﻧﮑﺎﻟﺘﮯ ﮨﯿﮟ

 
ﺟﺲ ﻃﺮﺡ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺰﺩﻭﺭ

 
ﮔﺮﻣﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺭﻭﺯﮮ ﻣﯿﮟ

 
ﺗﺎ ﻭﻗﺖ ﺍﻓﻄﺎﺭﯼ

 
ﻭﻗﺖ ﮐﻮ ﮔﺰﺍﺭﺗﺎ ﮨﮯ

 
ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﮐﭽﮫ ﻋﺮﺻﮯ ﺑﻌﺪ

 
ﺍﻥ ﻣﺼﺮﻭﻑ لوﮔﻮﮞ ﮐﻮ

 
ﺍﭼﺎﻧﮏ ﯾﺎﺩ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ

 
ﺍﮎ ﺟﻮﮐﺮ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﮭﺎ

 
ﻭﮦ ﮐﮩﺎﮞ ﭘﮧ ﻏﺎﺋﺐ ﮨﮯ

 
ﻋﺮﺽ ﻓﻘﻂ ﺍﺗﻨﯽ ﮨﮯ

 
ﺩﺭﺩ ﺩﺭﺩ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ

 
ﺍﭘﻨﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ

 
ﺟﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﺟﻮﮐﺮﮨﻮ

 
ﺍﺱ ﮐﻮ ﺗﻮﮌﻧﺎ ﭼﺎﮨﻮ

 
ﺟﻮﮌﻧﮯ ﮐﯽ ﭘﮭﺮ ﮐﻮﺋﯽ

 
ﮐﻮﺷﺸﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﻧﺎ