ایسا کیوں ہے؟
روشنیوں کے سفر میں ابھی چل
رہا ہے نا وہ مرا عکس ساتھ ساتھ
کہ جس کے سفید عمدہ چہرے کا
سایہ سیاہ کیوں ہے
ابھی چمکا رہا ہوں میں خیالوں
کے موتی روشنی کے آفتابوں سے
پھر اس خردمندی کے سمندر یہ
سہما سہما دل گمراہ کیوں ہے
لگ رہا ہے ہرا ہرا یہاں جگ
سار دوستی حسن کے رنگوں سے
پھر وہاں کونے میں
علیحدہ یہ تنہائی کی دنیا تباہ کیوں
ہے
ابھی قابل غور ہیں یہ تصویریں
یہ خاکے ترقی کے سفر میں
پھر سمجھ نہیں آرہا سادہ زندگی
کی دشواری پچیدہ کیوں ہے
میں کر رہا ہوں صد کوششیں
تیری اور آنے کی تجھے پانے کی
تو قریب ہے مجھ سے اتنا میں
دور ہوں تجھ سے ایسا واللہ کیوں ہے
(تیمور اعظم مختصر)
No comments:
Post a Comment