اظہار غم کے لیے یوں تو کئ بہانے نکلے
سننے والوں کے لیے مگر وہ محض فسانے نکلے
فقط رسوائیوں سے ہی کشکول سجا ہے ہمارا
ہم جو زمانے میں کبھی عزت کمانے نکلے
جس شمع کے اجالے ہم سے منسوب ہیں یاروں!
اسی کی راکھ سے یہ لوگ ہمیں جلانے نکلے
ہماری وجہ بربادی جاننا چاہتے ہو تو سنو!
ہمراز جتنے تھے سب کے رقیب سے دوستانے نکلے
دکھ یہ نہیں کہ آگ نے آشیانہ جلا دیا
افسوس کہ ہمارے سمندر سے تعلق بہت پرانے نکلے
ممکن ہے کہ اس بار ناکام ہی لوٹوں میں
اب کہ غیر نہیں،اپنے ہی مجھے آزمانے نکلے
یونہی چوکھٹ پہ ٹکے رہتے ہیں،اندر نہیں آتے
یہ میرے خواب بھی اپنوں کی طرح بیگانے نکلے
ہماری تنہائیوں کاثبوت کیا مانگتے ہو ماہی!
اپنے ہی جنازے کو اٹھا کر ہم دفنانے نکلے
از قلم:-
مہرین عبد الصمد
سننے والوں کے لیے مگر وہ محض فسانے نکلے
فقط رسوائیوں سے ہی کشکول سجا ہے ہمارا
ہم جو زمانے میں کبھی عزت کمانے نکلے
جس شمع کے اجالے ہم سے منسوب ہیں یاروں!
اسی کی راکھ سے یہ لوگ ہمیں جلانے نکلے
ہماری وجہ بربادی جاننا چاہتے ہو تو سنو!
ہمراز جتنے تھے سب کے رقیب سے دوستانے نکلے
دکھ یہ نہیں کہ آگ نے آشیانہ جلا دیا
افسوس کہ ہمارے سمندر سے تعلق بہت پرانے نکلے
ممکن ہے کہ اس بار ناکام ہی لوٹوں میں
اب کہ غیر نہیں،اپنے ہی مجھے آزمانے نکلے
یونہی چوکھٹ پہ ٹکے رہتے ہیں،اندر نہیں آتے
یہ میرے خواب بھی اپنوں کی طرح بیگانے نکلے
ہماری تنہائیوں کاثبوت کیا مانگتے ہو ماہی!
اپنے ہی جنازے کو اٹھا کر ہم دفنانے نکلے
از قلم:-
مہرین عبد الصمد
No comments:
Post a Comment