کیا محبت کرنے لگے ہو؟
جیسے
ڈھلتا ہے دن پچھم میں
تم
بھی ایسے ڈھلنے لگے ہو
سوکھے
ہوئے پتوں کی طرح
تم
بھی بکھرنے لگے ہو
کیا
محبت کرنے لگے ہو؟
یہ
راہ اتنی آسان نہیں
تم
کیوں الجھنے لگے ہو
منزل
کا تمہیں علم نہیں
پھر
بھی چلنے لگے ہو
کیا
محبت کرنے لگے ہو؟
کھلتے
ہوئے گلاب جیسے
تم
بھی کھلنے لگے ہو
سمندر
کی لہڑوں کی مانند
تم
مجھ سے ملنے لگے ہو
کیا
محبت کرنے لگے ہو؟
یہ
عشق تو مثلِ دلدل ہے
تم
اس میں پھسنے لگے ہو
سارے
غموں کو بھلا کر
تم
پھر سے ہنسنے لگے ہو
کیا
محبت کرنے لگے ہو؟
توڑ
کر حدیں ساری
تم
وفائیں کرنے لگے ہو
رب
کے آگے سجدہ کرکے
تم
دعائیں کرنے لگے ہو
کیا
سچ میں محبت کرنے لگے ہو؟
از خدیجہ نور
آپ کے کلام میں کوئ بدت نہیں ہے. اس میں کوئ نئ شے پیدا کریں. کیا وہی تم محبت کرو گے تو پچھتانا پڑے گا. یا پھر اس کیفیت کو اتنے .بلندمرتبے میں کہیں کے کوئ طوفان برپا ہو. کیونکہ لہروں میں جھومنےکا کچھ اور ہی مزہ ہے... یوں تو بندہ ڈوب ہی جاتا ہے مگر کیونکہ شاعر حضرات اس مبالغے کو سمجھ لیتے ہیں تو اس لیے..ذرا سوچیے.... Think before you sleep...
ReplyDelete