غزل
فخر خاک ہے جو خاک پہ خدا اعتبار کیا
اوج کمال بخشی اور فلک تئیں پرچار
کیا
بیچارے
عاشق ہیں خوار اس ستم ظریفی سے
دیکھتے ہی دیکھتے نگاہوں
سے بیمار کیا
کہنے
کوتو ہوئ حاصل دو چاروصل کی گھڑیاں
پھر تا قیامت صدا اس شوخ کا
انتظار کیا
تم
نے چہرے پر سے اٹھائیں جو لگا کر آنکھیں
بے دم
کیا بے قرار
کیا بیزار کیا
نکلی
تھیں یہ صدائیں مرےدل سے ہوتے ہوۓ
یعنی یہ صیاد عرش
تلک شکار کیا
چلتے ہوۓ باغ میں
گل و سنبل ونسریں نے
تیرے
رخ پہنگاہ باندھی ہررنگ تجھ پہ بنثارکیا
دیکھی ہے گردش تو نے چرخ نیلی فام کی
کہ بازار
مصر میں یوسف کا خریدار
کیا
تیری دشمنی
میں مختصر نے ان کو سادہ
پرکار کیا
عیار کیا ہشیا ر کیا
(تیمور اعظم مختصر)
No comments:
Post a Comment