زندگی تو پھول تھی پر خاروں نے لوٹ رکھا ہے
میں وہ شخص ہوں جسے یاروں نے لوٹ رکھا ہے
میں تو کب کا بھول گیا ہوں تیری ادائوں کو
بس پہلی ملاقات کے اشاروں نے لوٹ رکھا ہے
کوئی محبوب بھلا کب چاہتا ہے رسوائی اپنی
اسے تو بس عشق کے بیماروں نے لوٹ رکھا ہے
بدنام بھی کرتے ہیں اور خود بھی نہیں چھوڑتے
محبت کو تو اس کے شاعروں نے لوٹ رکھا ہے
وہ جو رکھتے نہیں ہیں چہرے پر نقاب اپنے
دیوانوں کو تو ان کے رخساروں نے لوٹ رکھا ہے
تیرے ہی دم سے تو رہتی ہے رونق محفل میں
تبھی تو میکدے کو میخاروں نے لوٹ رکھا ہے
غیروں سے تو شکوہ ہر کوئی کرتا ہے مگر
تجھے تو ساقی تیرے ہی پیاروں نے لوٹ رکھا ہے
میں وہ شخص ہوں جسے یاروں نے لوٹ رکھا ہے
میں تو کب کا بھول گیا ہوں تیری ادائوں کو
بس پہلی ملاقات کے اشاروں نے لوٹ رکھا ہے
کوئی محبوب بھلا کب چاہتا ہے رسوائی اپنی
اسے تو بس عشق کے بیماروں نے لوٹ رکھا ہے
بدنام بھی کرتے ہیں اور خود بھی نہیں چھوڑتے
محبت کو تو اس کے شاعروں نے لوٹ رکھا ہے
وہ جو رکھتے نہیں ہیں چہرے پر نقاب اپنے
دیوانوں کو تو ان کے رخساروں نے لوٹ رکھا ہے
تیرے ہی دم سے تو رہتی ہے رونق محفل میں
تبھی تو میکدے کو میخاروں نے لوٹ رکھا ہے
غیروں سے تو شکوہ ہر کوئی کرتا ہے مگر
تجھے تو ساقی تیرے ہی پیاروں نے لوٹ رکھا ہے
No comments:
Post a Comment