affiliate marketing Famous Urdu Poetry: 2025

Friday, 24 October 2025

Ghazal by Akash Tabassam

دل کی ہے یہ تمنا کہ

تھوڑا سا مسکرا دیجئے

سمجھ کر اک کانٹا

ہلکی سی ٹھوکر لگا دیجئے

نہ جانے کونسی کشش کھینچ

لائی ہے دریار پہ مجھے

لہرا کر دامن لائے ہیں

کچھ اس میں عطا دیجئے

تشنگی ہے تیرے پیار کی جاتی

نہیں لب سے میرے مگر

ہم ہو جائیں تیرے فقط

جام ایسا بس پلا دیجے

آکاش تبسم 💓🖋🖋

***************

میں ادنی سا عام سا لڑکا ہوں

میری ذات پہ کھ کرم کر یارا

نزاکت حسن سے ہزار ہوئے قتل

ان آنکھوں سے نہ ظلم کر یارا

میں تجھ سے تیرے عشق کا حصہ منگتا ہوں

نہ کر انکار خدارا رحم کر یارا

آکاش تبسم 🌷🥀💓🖋

**************

میں پڑھتا ہوں یہ قصہ کبھی کبھی

آتا ہے خود پہ بھروسہ کبھی کبھی

اک ہسینہ لوٹ گئی چین مرے دل کا

ورنہ کرتا تھا تمنا میں بھی کبھی کبھی

یہ جوانی کہ دن بھی مزے کے ہیں پر

کہ آتا ہے طیش و طبع کبھی کبھی

لوگ کہتے ہیں میں رہتا ہوں در یار پر

میں جاتا ہوں وہاں با خدا کبھی کبھی

سارا دن گزرتا ہے بے چینیوں میں مرا

ہوتا ہے دن میں رابطہ کبھی کبھی

آے ہیں دن محبت کہ تو ذرا مسکرا لو

کہ آتا ہے یہ لمحہ بھی کبھی کبھی

آکاش تبسم 🖋🌷🥀

****************

Wednesday, 22 October 2025

Poetry by Akash Tabassam

یہ قسمت تھی میری کہ میں پھر سنور گیا

ورنہ سوکھے پھول کو اٹھاتا کون ہے

اسے عادت تھی مجھے ساتھ لے کر چلنے کی

اس دور جہالت میں ساتھ نبھاتا کون ہے

اسے محبت تھی مجھ سے یہ میں جان گیا

ورنہ ہم جیسوں کو سینے سے لگاتا کون ہے

آکاش تبسم

٭٭٭٭٭٭٭

یہ تجھ سے عرض ہے مری یارب

مری گزری رت لٹا دے مجھ کو

مفلسی ہے کہ جاتی نہیں زندگی سے

یہ مرا جو حافظہ ہے جلا دے اس کو

تو جانتا ہے مرے دل کو اچھے سے

یہ جو تنگ مسئلہ ہے سلجھا دے اس کو

تو رب ہے تجھ سے کچھ بھی ناممکن نہیں

بس یہ ہے کہ مری قسمت بنا دے اس کو

آکاش تبسم

٭٭٭٭٭٭٭

بات سنتا ہے مگر سمجھا نہیں شاید

لگتا ہے تو بھی محبت میں الجھا نہیں شاید

روز کرتا ہوں دعا سجدوں میں مگر

پر خدا بھی مرے مسئلوں آشنا

نہیں شاید

ہم بندے گنہگار سے ہیں ہمیں کیا ہے شکوہ

لگتا ہے تو بھی اپنوں سے کبھی

لٹا نہیں شاید

کیونکر لوگ بیزار ہیں مری شاعری سے

 لگتا ہے کہ انداز مرا اچھا نہیں شاید

Akash Tabassam

٭٭٭٭٭٭٭

جب چاہتا تھا میں تو کوئی مجھ سے الجھتا نہیں تھا

وہ باتیں سنتا تھا مگر کیوں باتیں وہ سمجھتا نہیں تھا

سالوں کی جدائی لے گئی تھی

نور آنکھوں سے کیوں تبسم

یوسف اپنے بھائیوں کو کیوں

آخر جچتا نہیں تھا

آکاش تبسم 🥀🥀

٭٭٭٭٭٭٭

دل ٹوٹا بھی ایسے کہ اب پتھر

کی اہمیت نہ رہی

زندگی کا کیا کروں کہ جب یار

کی صحبت نہ رہی

یہ مرا مقدر تھا کہ جو بن کر ملا اک عبرت

مری تو اب زندگی سے کچھ بھی شکایت نہ رہی

کبھی کیا تھا عشق میں نے بھی

کیا بتاؤں تجھے ساقی

یہ ہے اب اس حسن زادی سے چاہت نہ رہی

پہلے تھا مجھ کو بھی شوق محبت کسی سے تبسم

مگر اب  خط پر محبت لکھنے کی عادت نہ رہی

آکاش تبسم 🖋🖋

٭٭٭٭٭٭٭

نہ محبت چاہیے ,نہ ملے محبوب کوئی

کر گیا تھا یہ بات بھی خوب کوئی

کتنے کرتے ہیں تنقید مری تحریروں پر

مگر نہ ملا ان کو لفظوں میں عیوب کوئی

آکاش تبسم 🖋🖋

٭٭٭٭٭٭٭

میں کتنا ہوں عیبوں سے پاک, یہ رب جانتا ہے

کرتا ہوں کتنے پل تجھے یاد,

یہ رب جانتا ہے

تاریکی میں بھی ستاروں کی تمنا نہ کی مگر

رکھتا ہوں دل میں کس کی آس

یہ رب جانتا ہے

جتنا چھیڑو گے یہ قصہ اتنا الجھے گا

دل جل کر ہوا کیسے راکھ بس

رب جانتا ہے

اک آرزو تھی کہ وصل آرزو ہوتی تبسم

ہر آرزو کو کیا کیسے خیر باد

یہ رب جانتا ہے

آکاش تبسم 🌷🌷

٭٭٭٭٭٭٭

کب تک رہے گی یہ زنجیر, خدا جانے

کیسے دکھے گی یہ تصویر خدا جانے

ان کے ستم سے کیوں لہجا نہ بدلا میرا

کیوں لگتے ہیں اچھے دست تعزیر, خدا جانے

آکاش تبسم

٭٭٭٭٭٭٭

سن رکھا تھا محبت میں بہت کچھ

جب عشق میں خود کو پرکھا

تو میں سمجھا

سوچتا تھا کہ عاشق ہوتے ہیں کیسے پاگل

جب یہ معاملہ خود پہ دیکھا

تو میں سمجھا

آکاش تبسم 💓💓

٭٭٭٭٭٭٭

آیا تو بہت کچھ لب پہ مگر

بتانے کی ہمت نہیں

اک بار جو اجڑا نگر ہے پھر

بنانے کی ہمت نہیں

سلجھایا تھا کتنے مسئلوں

کو تنہا میں نے

اب اس قدر ہوں تنگ اور

سلجھانے کی ہمت نہیں

اتنی دفعہ ٹوٹا ک ٹوٹ کر میں

ہارا نہیں تبسم

بس یہ ہے کہ اب دل لگانے کی ہمت نہیں

آکاش تبسم 🖋🖋

٭٭٭٭٭٭٭

اک بار ملی نظر تو ہٹانے کو لگتی ہے, بڑی دیر

دل میں ابھرے یہ نشاں تو مٹانے کو لگتی ہے, بڑی دیر

مانا کہ شاعری لکھی جاتی ہے

پل بھر میں مگر

یہ ہے کہ سنانے کو لگتی ہے بڑی دیر

کیسے بتاؤں میں دل کی کیفیت یارا

ہر کسی سے جی لگانے کو لگتی ہے, بڑی دیر

کتنی شدت سے چاہتا ہوں میں

تجھے جانا

مگر یہ بات بھی بتانے کو لگتی

ہے, بڑی دیر

سمجھ کر پھول اٹھا لو مجھ کو اے صنم

کہ ہم جیسا بھی پانے کو لگتی

ہے بڑی دیر

شب وصل میں نہ ملاؤ نگاہیں

مجھ سے تبسم

پھر ان نگاہوں کو الجھانے کو لگتی ہے, بڑی دیر

آکاش تبسم 💓🖋

٭٭٭٭٭٭٭٭

اتنا عام سا تو مجھ کو کیوں سمجھتا ہے

ہمیں اگر پرکھے گا تو کچھ اور

پائے گا

یہ محبت ہے کہ اس میں جان جانا

مجھے اگر دل سے دیکھے گا تو

سمجھ جائے گا

آکاش تبسم 🥀🌷🖋

٭٭٭٭٭٭٭٭

مری جاں پہ گزری تمام اذیتیں

مری زندگی میں ان کا شمار کر دو

وہ تو ان کا امتحان تھا کہ وہ نہ 

مانے مگر

کبھی کہا تھا زلیخا نے یوسف سے کہ اظہار کر دو

آکاش تبسم 💓🥀🖋

٭٭٭٭٭٭٭٭

Monday, 20 October 2025

Poetry by Dua Khurram

تنہائی میں گزر جاتے ہیں یہ دن اور یہ راتیں

تم جو ہوتے تو ہم کرتے تم سے محبت کی باتیں

Written by Dua Khurram

************

اس کی آنکھوں میں تھا کچھ ایسا اثر ملا

 تو انجان تھا ، بچھڑ کر جان بن گیا

Written by Dua Khurram

************

کچھ یوں ہوتا ہے اس کی محبت کا اثر

اس کو سوچنے سے بچکیاں رک جاتی ہیں

Written by Dua Khurram

************

دوریاں جا سکتی ہیں اس کی یاد آ سکتی ہے

یہ اندھیرا جانے کو ہے اس کی دستک آسکتی ہے

Written by Dua Khurram

************

کچھ خاص تھا اُس کی اداؤں میں کچھ راز تھا اُس کی باتوں میں

یونہی نہیں دل ہارا میں نے کچھ شرارت سی تھی اُس کی نگاہوں میں

Written by Dua Khurram

************

 

Saturday, 18 October 2025

Ghazal by Sidra Ali

تیری مسکراہٹ میں جادو سا اثر ہے،

دیکھوں تجھے تو دل بے قرار ہو جائے۔ 💫

 

تیری باتوں میں ہے پیار کی خوشبو،

سُنوں تجھے تو دل ہلکا سا ہو جائے۔ 🌷

 

تیری آنکھوں میں ہے چاندنی راتوں کا سکون،

نظر ملے تو دل خوابوں میں کھو جائے۔ 🌙

 

تو پاس ہو تو سب کچھ اچھا لگے،

دن بھی حسین، رات بھی سجی لگے۔ 🌼

 

فازی کہتا ہے، تُو دل کا سکون ہے،

تُجھ بن زندگی ادھوری سی لگے۔

*************

تُو ملی ہے تو زمانہ بھی حسیں لگتا ہے،

تیرا چہرہ مری تقدیر کا چین لگتا ہے۔ 🌸

 

تیری آنکھوں میں جو مستی ہے، وہ جادو سا ہے،

اک نظر دیکھ لوں تو دل کو سکون لگتا ہے۔ 💫

 

تیرے ہونٹوں کی مسکراہٹ پہ دل قربان کروں،

یہ جہاں تیرے تبسّم کا مکیں لگتا ہے۔ 🌷

 

جب تُو بات کرے نرمی سے، تو لگتا ہے یوں،

جیسے خوشبو کسی پھول سے بَریں لگتا ہے۔ 🌹

 

فازی کہتا ہے، تُو آئے تو بہار آ جائے،

تیرا ہونا مرے دل کی زمین لگتا ہے۔

**************

Thursday, 16 October 2025

Poetry (Manzar) by Kinza Afzal

"منظر"

پتھر سے دل لگانا لیکن انسان سے بچ جانا،،

پتھر سے لگے زخم سے خون رستا ہے،،

انسان مگر سانپ بن کر ڈستا ہے،،

زہر بن کر پیار جسم میں سما جاتا ہے،،

اس زہر کا درد بڑا تڑپاتا ہے رولاتا ہے،،

سانپ جب ڈستا ہے تو چھپ جاتا ہے،

پھر کہا اک لمحہ بھی سکوں آتا ہے،،

کوئ سانپ کا ڈسا کہاں سانسوں کی تاب لاتا ہے،،

جسم میں اترے اس زہر سے کب زندہ بچ پاتا ہے،،

تڑپ تڑپ کر سانسں چار لینی ہیں

درد سے ہو کر چور آخر جان سے جاتا ہے،،

ہزارو لاو طبیب یا پھر کرواتے پھرو تعویذ

اثر اس زہر کا کبھی نہیں جاتا

 نا کوئ اس درد روک پاتا ہے،،

تڑپ کر نکلتی ہے جان بدن سے

اور دنیا پھر چھوڑ جاتا ہے،،

"Kinza Afzal"

************

منظر

اس نے سچ بول کر مجھے گوا دیا

میں نے جھوٹ بول کر خود کو بچا لیا

وہ سمجھا کہ ہے یقین اس نے مجھے دلا لیا

میں سمجھی دھوکہ ہے اس سے میں نے کھا لیا

وہ سمجھا کہ میں نے اسے دل میں ہے بسا لیا

میں سمجھی کسی پتھر سے ہے زخم لگا لیا

                         مگر"

 وہ کہتا ہے کہ تم نے مجھے کیوں دغا دیا

میں کہتی ہو تم نے بھی دل مجھ سے بہلا لیا

وہ کہتا ہے میں نے سچ بول کر وفا کو ہے نبھا دیا

میں کہتی ہوں تیری باتوں نے میرا تن من جلا دیا

وہ کہتا ہے مجھے یہوں کیوں چھوڑا ہے؟

میں کہتی ہو تم نے میرا بھروسہ کیوں توڑا ہے؟

پھر کہتا ہے کیا تم نے مجھ پہ اعتبار کیا تھا؟

میں کہتی ہوں کیا تم نے مجھ سے  پیار کیا تھا؟

میرے بدن سے لہو نچوڑ لیا تھا

یہ کیسا تم نے اظہار کیا تھا

تم نے سچ بول کر مجھے گوا دیا

میں نے جھوٹ بول کر خود کو بچا لیا،،

"Kinza Afza"

************

"منظر "

وہ ہی تھا منظر  وہی تھا منتظر

نا اہل ایمان تھا نا تھا کافر

مجھے راستے سے اس نے بھٹکانا تھا

وہ جو بنا تھا میرا ہمسفر

میں سزا اسے کیا دے سکتی ہوں

بس ایک بد دعا دے سکتی ہوں

نا ملے تجھے کوئ منزل

نا ہو تیرا کوئ ہمسفر

نا تیرا کوئ ٹھکانہ ہو

نا بند کمرے میں تجھے

 آتا کسی کو بہکانہ ہو

یوں ہی دربدر بھٹکتے رہو

جیسے بٹھکا ہوا کوئ ہو مسافر

تجھے عبرت کا نشاں بناۓ خدا

کسی دیوانے کی طرح تو بھاکتا رہے

تیرے پیچھے ہاتھوں میں پتھر لیۓ زمانہ ہو

تجھ سے اٹھے اعتبار یوں دنیا کا

تو اللہ اللہ کرتا رہے

مگر لوگ تجھے کہیں کافر،،

"K.A"

*********

غزل

" دھوکہ باز یہ دنیا"

اب کے جو ٹوٹا ہے بھروسہ عمر بھر نا کر سکوں،،

میری زات کے ہوۓ کئ ٹکڑے میں جی سکوں نا مر سکوں،،

مجھ پہ ایسی برسائ گئ ظلم کی بارش،،

نا آنکھوں سے انسوں برس سکیں

نا لبوں سے میں مسکرا سکوں،،

اٹھا ہے اعتبار جو کہ اب زمانے سے،،

کسی حسن پرست سے نا دل لگا سکوں،،

یہ لکھتے ہوۓ آنکھوں سے خون برسنے لگا،،

دل تڑپنے لگا ایسے میں کسی طرح نا بہلا سکوں،،

وحشت ہوتی ہے اب اندھیری اس دنیا سے،،

نا تنہائ میں جھل سکوں نا محفل میں جاسکوں،،

"kinza Afzal"

*************

خوف

دل کرتا ہے ان درندوں سے خود کو چھپا لوں،،

موت آۓ نا آۓ زندہ قبر میں خود کو دفنا لوں،،

کہیں نوچ نا لے کفن میں لپیٹا کوئ وجود میرا،،

نام کی جگہ پتھر شناخت قبر پر لکھوا دؤں،،

کروں جسم و جاں سپرد خدا کے میں،،

ربَ العزت میں صرف تیری ہی پناہ لوں،،

دیکھ سکے نا میلی نظر سے کوئ،،

شرافت سے نا لوٹ لے مجھے کوئ،،

یا ربَ مجھے دنیا کی غلاظت سے بچا لے

محفوظ رکھ میری زات کو آپنی ہی پناہ دے،،

(آمین)

    

"Kinza Afzal"

***********

روح پہ لگی ضرب"

خون جسم سے نیچڑ گیا اس کی ایک ہی بات سے،،

ساری زندگی کا بوجھ بھاری ناتھا دوستی کی ایک رات سے،،

وہ اکثر لوگوں کی طرح منافق تھا،،

میرا نادان دل اسکی فطرت سے غافل تھا،،

روگ عشق کا تو لگا نہیں

مگر جسم ٹھوکر سے بچا نہیں

روح پہ لگی اس ضرب کو میں کس سے کہوں

بھری اس دنیا میں کوئ دوست نہیں

 میرا کوئ آپنا نہیں

کاش کہ زندگی میں ایک یہ رات آئ نہ ہوتی

کہ اس کی باتوں سے تنہائ مٹائ نہ ہوتی،،

کچا تھا وہ اس راہ کا مسافر

نا اہل ایمان تھا نا تھا کافر

تلا تھا وہ مجھے بھی بھٹکانے کو

مگر میں مکر گئ اس راہ پہ جانے کو

اگر اس نے اوقات پہلے ہی بتائ نا ہوتی

تو شاید کہ ہم میں کبھی جدائ نا ہوتی،،

چل پڑتی شاید قدم بہ قدم ساتھ اس کے

اگر دور سے ہی کانٹوں بھری منزل

 اس نے دیکھائ نا ہوتی،،

کاش کہ میری زندگی میں یہ رات آئ نہ ہوتی

تو کچھ جھوٹی سچی حقیقت اسے سنائ نہ ہوتی،،

 

"Kinza Afzal"

*************

چاند کی چاندنی ہو،،

سورج کی روشنی ہو،،

یا پھر کوئ دیا جلا ہو،،

میں خود کو چھپا لیتی ہوں،،

مجھ پہ کسی کی نظر نا ہو،،

کہ مجھے کوئ دیکھ نا رہا ہو،،

میں تھی کبھی بہادر بہت،،

 کہ دینا سے نڈر تھی بہت،،

میں کبھی بے خوف تھی،،

حوصلہ مند بہت تھی،،

          مگر"

لوگو کو میں جانچنے لگی،،

پھر تھر تھر میں کانپنے لگی،،

بھیڑیے بستے ہیں دھاڑ کے صورت انسان کی،،

مجھ معصوم کو کہاں دریندوں کی پہچان تھی،،

ہر کسی پہ اعتبار کر بیٹھتی تھی،،

 سمجھ کہ انسان پیار کر بیٹھتی تھی،،

 کہ میں تو ہمیشہ مخلص تھی،،

دل میں بھری ڈھیرو الفت تھی،،

مگر دوھرے روپ سے انجان تھی،،

کیوں کہ میں پاگل نادان تھی،،

"Kinza Afzal"

**********

آخر غرور اب کہ میرا بھی ٹوٹ گیا

             جو چہرا چھپایا تھا نقاب میں

              اس کا حسن کوئ لوٹ گیا

                اک لفظ کسی نے بول دیا

                 میرا بھرسہ سارا توڑ دیا

                   سمجھی تھی ڈوبتی کو

                    ملا ہے تنکے کا سہارا

                   میرا سارا وجود ایک

                   دلدل میں ڈوب گیا

               ساری قسمیں دھری رہی

              خود سے کیا وعدہ ٹوٹ گیا

             سہارا ملا ہی کب تھا کسی کا

                   کہ میں آنسوں بہاوں

               ہاتھ اس سے میرا چھوٹ گیا

"Kinza Afzal"

**************