affiliate marketing Famous Urdu Poetry: January 2022

Thursday 27 January 2022

Faria Ne Dekha khwab by Syeda Sughra Ghazi

               نظم: 

فاریہ نے دیکھا خواب

شاعرہ: سیدہ صغریٰ غازی؃

 

کل رات خواب میں میں نے عجب نظارہ دیکھا

سالار، عمر، اور  جیل پلٹ فارس ہمارا دیکھا

اک طرف میجر  احمد عرف ڈولی کھڑے منہ لٹکائے

دیکھا تو سامنے سے ہی عالیان بھی چلتا آئے

سلام دعا کرکے پوچھا میں نے سب کا حال

فارمی چوزے جیسی شکلیں لیے سبھی تھے بے حال

فرائنگ پین لیے آگے کو  آیا ڈولی عرف جہان

کہنے لگا حل بتائو غازی  ہم ہیں بہت پریشان

دیکھو زرا ان رائٹرز نے ہمیں کیا سے کیا بنادیا

میجر مجھے بنوا کر بھی یہ فرائنگ پین تھما دیا

اک انگھوٹھی کے لیے یہ ریڈرز کو کیا پڑھایا

امامہ کے لیے  ہائے سالار کا دیوالیہ کروایا

یہ فارس کی  عزت تو ہے ہی نہیں جیسے

زمر اسے طعنے دیتی ہے ہر بات پر ایسے

 

 

 امرحہ منحسوس مینڈکی کو دے دیا عالیان

ایسی لڑکی ہے وہ خدا کی پناہ الامان

تھپڑ امامہ نے مارا تھا یہ بھی اسے بتائو

اور سلش جو تم پر پھینکا حیا نے وہ بھی سنائو

اور زمر نے دکھا دکھا کر جو جوس تھا پیا

 ہسپتال کے بستر پر میرے ارمانوں کا خوں کیا

سب دکھ اپنے اپنے سناتے گئے باری باری

پھر مڑ کے بولے عمر سے اب ہے تیری باری

کہنے لگا وہ منہ چار گز کا سوجائے

کیا بولوں مار دیا مجھے ہائے غازی ہائے

 ہائے کے بچے جوڈتھ سے کر لیا اعتراف محبت

کرنا تھا علیزہ سے جاہل تو نے اعتراف محبت

چھوڑ جہان دکھی ہوں میں آجا لگ جا گلے

مر گیا ہوں آخر بیشک ناراض ہے مجھ سے بھلے

 

 

بولا سالار بیٹی میری مجھے بلاتی ہے سالا سالا

جہان کہنے لگا خودکشی کا شوقین ہی کہلاتا ہے سالا

ہاں حیا تو ہر بات  پر جہنم جیسے بھیجتی ہے مجھے

جانتے ہیں جنجر بریڈ خراب کرنے والے پنکی ہم تجھے

یار ویسے تم سب کو شرافت چھو کر نہیں گزری

سر گوشی کی فارس نے جھاڑ کر اپنے کالر فرضی

واہ واہ دو نمبر آدمی تم نے بات کی کمال

میں عمر نہ بخشتا تمہیں ہوتا نہ جو میرا انتقال

ہزاروں لڑکیاں مرتی ہیں بس قدر کرتی نہیں حیا

آگئی شکی عورت پیچھے میرے ترکی بے حیا

 بیٹا کم نہیں میرے عشق میں بھی دیوانیاں

مر کر بھی امر ہوئی عمر جہانگیر کی کہانیاں

جا بھئی تو تو بھاگتا تھا علیزہ سے آیا بڑا شہزادہ

اور یہ فارس تھا ہاشم کے کیس میں ایک پیادہ

 

 

اوئے میری بیوی ہے زمر میرے منہ نہ لگ جہان

آیا بڑا فوراً سے مجرا ویڈیو ڈیلیٹ کرنے والا حکمران

اور یہ عالیان کی دیکھو آیا امرحہ کے واسطے پاکستان

مہنگائی بجلی گیس کے بکھیڑوں سے ہوئے خطا اوسان

دیکھو میری طرف نہ آنا میرا یار ہے کارل منحوس مارا

چٹکیوں میں یوں غائب کرے گا ملے گا نہ نشاں تمہارا

میں بولی بس کریں یہ کیا چخ چخ لگا رکھی ہے

یوں خواب میرے میں آکے تباہی سی مچا رکھی ہے

مسلئہ کیا ہے آپ کا بتائیں مجھے زرا صاف صاف

دیکھتے ہیں پھر کیا ہوسکتا ہے آپ کے ساتھ انصاف

پھر زرا سنبھل کے آگے آیا میرے سلجھا ہوا سالار

دیکھو غازی! بات سادہ تم بھی رائٹر ہو ہماری جان

ان باقی رائٹرز کو دے دو خدارا ہمارا یہ اک پیغام

 ہم تنگ آچکے یہ ہیرو ہیرو کی رٹ سے صبح و شام

 

 

  ایک انسان ہیرو بن کر پبلک پراپرٹی بن جاتا ہے

پھر وہ انسان نہیں رہتا مخلوق خدائی بن جاتا ہے

ہم تو مشہور ہوئے بے شک بہت زمانے میں

لیکن مشکل سفر ہوتا ہے ہیروئین کو منانے میں

ہیرے کی انگوٹھی دے کر کروالیا میں نے نقصان

اب قسطیں دے کے گھر کی بھر رہا ہوں بھگتان

یہ جہان کے ماموں کی آئی جو ترکی بٹیا رانی

اب ہر لڑکی مرتی ہے ترکی ترکی کی ہو کر دیوانی

پھر ہر دوسری لڑکی زمر جیسی بننا چاہتی ہے

 اپنا آپ بھول کے ہیروئین جیسی لگنا چاہتی ہے

کسی کی سوچوں میں ہے امامہ جیسی شباہت

اب بھلا جو خدا نے بنایا اس میں کیا ہے قباہت

اور کچھ ہونے لگتی ہیں امرحہ جیسی عجیب و غریب

کبھی تو مینڈکی جیسی کبھی نری عجیب و غریب

 

 

سن کر یہ باتیں میں نے اک گہرا سانس بھرا

پھر تسلی والا ہاتھ سالار بہنوئی کے شانے پر دھرا

 باتیں آپ کی درست ہیں باکل سو فیصد سولہ آنے

کرتی ہوں میں بات اگر رائٹر کوئی جو مانے

اب بس بھولی بھالی نا بنائیں یہ شکلیں معصوم

جانتی ہوں اچھے سے آپ کو کتنے ہیں مظلوم

میری یہ بات سن کر سب نے منہ کے زاویے بگاڑے

 ارے ایسے تو نہ کہو  غازی بڑے ہیں ہم تمہارے

خیر تم نے بات سنی، ہے ہم پر تمہارا احسان

 خوش رہو ہمیشہ قائم رہے یہ تمہاری مدھم مسکان

فارس بھیا کو میں نے دیکھا اٹھا کے تیکھی نگاہ

لائن مارنے سے باز رہیں زمر کو ورنہ دوں گی بتا

اب جائیں میری طرف سے سب کو بائے بائے

سپنوں کے راجکمار کی بجائے آپ ہیں چلے آئے

 

 

پھر سر پہ ہاتھ مار کر توبہ میں نے کی

نہیں نہیں ویسے ہی میرے منہ سے بات نکلی

اچھا اچھا چلیں اب جائیں آپ سب یہاں سے

اور پہنچ کر میسج کردینا مجھے وہاں سے

پھر وہ سب یونہی ہنستے ہنساتے چلے گئے

نوک جھونک کرتے ہنستے ہنساتے چلے گئے

اب میں بیٹھی ہوں صبح سے سوچوں میں گم

 کس رائٹر سے بات کروں انہی سوچوں میں گم

چلتی ہے اب غازی یاروں ہزاروں کرنے کو ہیں کام

تم سب تو فارغ رہتے ہو ہر دم صبح وشام

****************

Poetry by Kinzi Malik












Poetry by Kinzi Malik